اس تفصیل کے مطابق جائیداد اور کاروبار کے حاصل ہونے والے منافع کو تقسیم کر لیا جائے، جو لڑکے کاروبار میں براہ راست شریک ہیں، ان کا حق الخدمت الگ سے طے کیا جائے۔ کاروبار میں اٹھنے والے اخراجات میں اس حق الخدمت کو بھی شامل کر کے صافی منافع کو درج بالا حصص کے مطابق تقسیم کیا جائے۔ چونکہ والد صاحب کے اقدام سے اس کی بیٹیوں اور بیویوں کی حق تلفی ہوئی ہے، اس لیے اس کی تلافی کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَہُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ﴾ [1]
’’اگر وصیت کنندہ کی طرف سے کسی کی طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو معاملہ سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان کوئی اصلاح کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔‘‘
اس آیت کے پیش نظر مرحوم باپ کے غلط اقدام کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم!
٭٭٭
|