بدقماش اور آوارہ لڑکیوں کی تائید کرکے وہ معزز اور شریف والدین کی بے عزتی اور بے بسی کونظر انداز کردیتے ہیں لیکن اس تاریک دور میں بعض جج ایسے بھی ہیں جو عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر اس بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے ایسی لڑکیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور کتاب وسنت کے دلائل کو مدنظر رکھ کر صحیح فیصلہ بھی کرجاتے ہیں۔لیکن ایسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر ہیں،اکثر جج یہی فیصلے کیے جارہے ہیں کہ اگر لڑکا اور لڑکی گھر سے فرار ہوکر عدالت کے سامنے یا پولیس ہی کے سامنے ازدواجی زندگی کا اقرار کرلیں تو یہ نکاح صحیح شمار ہوگا حالانکہ کتاب وسنت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے۔اس نکاح کے باطل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نکاح میں لڑکی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے اور یہ بات پچھلے مسئلے میں ثابت کی جاچکی ہے کہ شریعت ِاسلامیہ میں ولی کی اجازت کے بغیر کیا گیا نکاح باطل وناجائز ہے۔(ابوالحسن مبشر احمد ربانی)
نوٹ٭:میں مترجم عرض کررہا ہوں کہ ولی اور عادل گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔اگر کسی لڑکی کا ولی اس کی شادی کسی غیر مناسب جگہ پر زبردستی کرنا چاہتا ہے یا اسے زبردستی کہیں مناسب جگہ شادی کرنے سے روکنا چاہتا ہے جس میں شرعی طور پر کوئی قباحت نہیں ہے اور ولی فقط اپنی انا یا دیگر کسی غرض سے رکاوٹ بن رہاہے تو لڑکی کو چاہیے کہ وہ اپنے دیگر ولیوں سے مدد طلب کرے یعنی باپ زبردستی کررہا ہے تو بھائی، چچا،دادا،تایا وغیرہ سے مدد طلب کرے۔اگر وہ بھی تیار نہ ہوں توخاندان کے دیگر بزرگوں اور مؤثر افراد سے تعاون کی درخواست کرے لیکن اگر کوئی بھی اس کی مدد کرنے کو تیار نہ ہوتو پھر کسی کو ساتھ لے کر پنچائیت یا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور انصاف کی اپیل کرے۔مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اپنے کسی آشنا کے ساتھ فرار ہوجائے اور کورٹ میرج کرلے۔اپنی مشکل میں عدالت سے انصاف طلب کرنا اور چیز ہے اور کسی لٹیرے کے ساتھ گھر سے بھاگ جانا اور ماں باپ کی عزت خاک میں ملادینا اور بات ہے۔اسلام ایسے خفیہ یا رانوں اور چوری تعلقات استوار کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی ایسی شادی شرعی لحاظ سے صحیح ہے۔کاش ہمارے ملک میں شرعی نظام نافذ ہوتا تو ہرکسی کو انصاف مہیا ہوتا۔عدالت نوجوان لڑکی کی بات پر غور کرتی اور اس کے
|