Maktaba Wahhabi

36 - 366
نہیں ہیں ۔ یہ وہ طبعی اور لازمی راستہ ہے جس پر سابقہ انبیاء اور ان کی مٹھی بھر جماعتوں کو چلنا پڑا۔ نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال توحید سنائی دن رات وادیوں اور چوٹیو ں پر خلوتوں اور جلوتوںمیں قوم کے برے برتاؤپر صبر کرتے ہوئے ۔ نتیجہ صرف یہ نکلا کہ صرف 80افراد نے اس توحید کی دعوت کو قبول کیا پتہ نہیں ان 950 سالوں میں قوم نے کتنا تنگ کیا ہوگا کتنی بد سلوکی کی ہوگی کہ یہ دعا کرنے پر مجبور ہوگئے کہ یا اللہ ! اب اس زمین کی پشت پر سے کافروں کو اس طرح تباہ و برباد کردے کہ ان کا ایک گھر بھی باقی نہ بچے ۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی استقامت ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد صحابہ کرام کو اپنا خواب سنایا فرمایا کہ میں نے خواب میں میدان محشر دیکھا۔ ہر امت اجابت اپنے نبی کے ساتھ کھڑی ہے کچھ ایسے نبی بھی دیکھے جن کے ساتھ بیس پچیس افراد کی چھوٹی سی جماعت ہے کچھ ایسے نبی بھی دیکھے جن کے ساتھ صرف دو افراد کھڑے ہیں کچھ ایسے نبی بھی دیکھے جن کے ساتھ ایک ہی آدمی کھڑا ہے اور کچھ ایسے نبی بھی دیکھے جو بالکل تنہا کھڑے ہیں ۔ [1]گویا انہوں نے پوری زندگی دعوت کے میدان میں گزار دی اور ایک شخص بھی دعوت قبول کرنے والااور ساتھ دینے والانہیں ملا ۔ آپ ذرا تصور کیجئے ایسے انبیاء نے تنہا پوری زندگی اپنے قوموں کے درمیان کس طرح بسر کی ہوگی !غربت و اجنبیت کا کیا احساس ہوگا ؟ کتنی کامیاب اور مبارک زندگی ہے طاغوت کے نظام سے سمجھوتہ نہیں کیا پہاڑجیسی زندگی تنہا کاٹ گئے بڑے بڑے دکھ جھیلے ، مصائب و آلام سے دو چار ہوئے لیکن داعیانہ کردار سے سر مو پیچھے
Flag Counter