Maktaba Wahhabi

154 - 523
معاشرتی رواجوں کی وجہ سے اپنی بیٹیوں یا بہنوں کا نکاح نہیں کرتے اور انھیں گھر بٹھائے رکھتے ہیں، حالانکہ اسلام میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ اس کی وجہ سے ایسے اولیا اور سرپرست اپنی بیٹیوں، بہنوں اور ماتحتوں کو عظیم ترین نقصان، شدید ترین حسرت اور ناقابل بیان تکلیف سے دوچار رکھتے ہیں۔ ایسے سرپرستوں کو اس کام سے بچنا چاہیے جو انھیں اﷲ تعالیٰ کے غضب کا سزاوار ٹھہراتا ہے کیونکہ روز قیامت ان سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( کلکم راع، وکلکم مسؤول عن رعیتہ )) [1] ’’تم میں سے ہر کوئی سرپرست ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ۔‘‘ نکاح کی مصلحت: اے اہل اسلام! اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے نکاح کو مخلوق کی مصلحت اور اس کائنات کو آباد کرنے کے لیے مشروع قرار دیا ہے، نکاح میں بہت زیادہ مصلحتیں اور بے شمار فوائد ہیں۔ انسانی معاشرہ اور امت جس قدر زیادہ اس کے معاملے کو اہمیت دے گی، نوجوان نسل کی شادی میں مخلص ہوگی اور نکاح کے اسباب میں آسانی پیدا کرے گی اسی قدر امت کی اپنے فرزندوں کو خوشی دینے اور معاشرے کو امن اور اطمینان کا گہوارہ بنانے کی خواہش پوری ہوگی۔ فضول رسموں سے بچیں: لیکن حقیقت حال کس قدر تکلیف دہ ہے کہ آج اکثر لوگ اسلامی ہدایات اور شرعی قواعد سے دور ہوچکے ہیں جو نکاح اور اس کے اسباب میں آسانی پیدا کرنے کی دعوت دیتے ہیں؟ کچھ لوگ غیر معمولی حق مہر کا مطالبہ کرتے ہیں، گراں قدر اخراجات کرتے ہیں، دعوتوں میں فضول خرچی کرتے ہیں اور دولت کے مظاہرے کرتے ہیں، یہ ساری فضول خرچیاں مالداروں کا مال برباد کرتی ہیں اور غریبوں کو ڈھیروں بوجھ تلے دفنا دیتی ہیں۔ درحقیقت یہ شادی کے سلسلے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے، بہت سارے نوجوان ان اخراجات کی سکت نہیں رکھتے اور نتیجے کے طور پر بہت ساری لڑکیاں نکاح کے شرعی حق سے محروم رہ جاتی ہیں اور ہم پلہ نوجوانوں کے ساتھ شادی نہیں کر پاتیں۔
Flag Counter