Maktaba Wahhabi

181 - 523
کس طرح یہ لوگ عورت کو بازار کا سامان بنادیتے ہیں اور اس کی سودے بازی کرتے ہیں، حالانکہ وہ اس سے کہیں بلند ہے۔ اس بد سلوکی اور ان اوچھے ہتھکنڈوں کی وجہ سے عورتوں کی ایک کثیر تعداد گھروں میں قیدی بن کر رہ گئی ہے۔ حق مہر شادی کا وسیلہ ہے مقصد نہیں: اللہ کے بندو! حق مہر شادی میں صرف ایک وسیلہ ہے، مقصد نہیں، اور اس میں زیادتی کے برے اثرات افراد اور معاشروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ عقل مند پر مخفی نہیں کہ یہ شادی کی راہ میں رکاوٹ ہے، یا ایسے معاشروں میں شادی کرنا جو دین وشریعت کے پابند معاشروں کے خلاف ہوں اس کے بڑے خطرناک نتائج ہیں۔ کبھی ایک لمحے کی لذت قیامت تک کے لیے ندامت کے دروازے کھول دیتی ہے۔ بعض لوگ لالچ اور طمع میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ انھوں نے سلف صالحین کی راہ سے بالکل الگ راہ اپنالی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’خبردار! عورتوں کے مہر میں گراں باری پیدا نہ کرو، اگر یہ دنیا میں کوئی باعث عزت چیز ہوتی یا آخرت میں سامانِ تقوی ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس روش پر چلنے میں تم سب سے آگے ہوتے۔ آپ نے اپنی بیویوں میں سے کسی کو بارہ اوقیہ سے زیادہ مہر دیا اور نہ کسی نے آپ کی کسی بیٹی ہی کو اس سے زیادہ حق مہر کی رقم دی۔‘‘[1] شائد موجودہ کرنسی میں یہ ۱۲۰ ریال، یا ۲۴۰۰روپے کی رقم بنتی ہے۔ ایک آدمی کی شادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جتنا قرآن حفظ تھا اس کے عوض میں کر دی۔[2] حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گٹھلی کے برابر سونے کے عوض نکاح کر لیا۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق مہر میں زیادتی کرنے والوں کو ناپسند فرمایاہے۔ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت کے ساتھ چاندی کے چار اوقیوں (۱۶۰ درہم ) کے عوض نکاح کیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter