Maktaba Wahhabi

182 - 523
’’آہ! چاندی کے چار اوقیوں کے عوض!! گویا تم اس پہاڑ سے چاندی تراشتے ہو؟ ہمارے پاس تمھیں دینے کے لیے کچھ نہیں۔‘‘[1] واللّٰه المستعان لیکن آ ج زیادتی کرنے والوں کا کیا حال ہے؟! کیا ان لوگوں کو خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ان سے ان کی امانتوں اور رعایا کے بارے میں خبر گیری ہوگی؟ کیا دلوں سے رحمدلی اٹھا لی گئی ہے؟ اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے! چوتھا مظہر: گراں قدر اخراجات اور سماجی رسمیں: امت مسلمہ! شادی کے متعلق چوتھی مشکل جو منہ اٹھائے کھڑی ہے وہ گراں قدر اخراجات، اور سماجی رسمیں ہیں جو اکثر لوگوں نے محض دوسروں کی پیروی میں، اورنام ونمود اور ناک ساکھ رکھنے کے لیے اپنے اوپر عائد کر لی ہیں جس میں بے دردی سے مال ضائع کرتے ہیں۔ اے امت اسلام! یہ سب کچھ آخر کس لیے ہے؟ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھا ئی ہیں: { اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا}[بني إسرائیل: ۲۷] ’’بے شک بے جا خرچ کرنے والے ہمیشہ سے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان ہمیشہ سے اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔‘‘ یہ کس قدر شرم کا مقام ہے کہ صرف ایک ایک تقریب میں بیش بہا مال ضائع کر دیا جاتاہے؟ آخر کس راستے میں یہ مال خرچ کیا جاتا ہے؟ کیا یہ لوگ محض اس بات سے دھوکا کھا جاتے ہیں کہ ان کے پاس بڑا مال ہے؟ کیا انھوں نے یہ حدیث نہیں سنی: (( إن رجالا یتخوضون فی مال اللّٰه بغیر حقہ، لھم النار یوم القیامۃ )) [2] ’’کچھ لوگ تکلف کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے روزِ قیامت آگ ہے۔‘‘
Flag Counter