Maktaba Wahhabi

203 - 523
موجودہ تاریخ کا مطالعہ و تحقیق کرنے والے، استعمار و سامراجیت کے قدم قدم کو بغور دیکھنے والے اور اس کی سیاست پر کڑی نظر رکھنے والے محققین اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ زبان پر حملہ کرنا، اس کی شان گھٹانا، مختلف ذرائع ابلاغ میں، کہانیوں میں، ناولوں میں اور ڈراموں میں اس زبان کے ساتھ تعلق رکھنے والوں اور اس کی خدمت کرنے والوں کو نشانۂ تضحیک بنانا اور باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے ان پر تابڑ توڑ حملے کرنا ہمیشہ سے ان کی سیاست رہی ہے، پھر بعد میں جو ان کے دسترخوان کے چھوڑے ہوئے ٹکڑے اٹھانے والے اور ان کے کرائے کے ٹٹو اور ایجنٹ ہوتے ہیں وہ اس مہم کو جاری و ساری رکھتے ہیں۔ ہاں، اس میں کوئی عجب پن نہیں کہ کسی بھی قوم کی زبان جنگ یا قبضے کے کسی بھی مرحلے میں مٹ جائے اور اپنا وجود کھو دے، کیونکہ زبان شناخت اور ذاتی پہچان کروانے کی ایک اہم علامت ہوتی ہے تو جب وہ زبان قرآن اور اسلام کی زبان ہو تو پھر اس کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی؟! اپنوں کے ظلم: برادران اسلام! یہ کوئی دانشمندی نہیں کہ دشمن اپنی مصلحتوں کو پورا کرنے، اپنے اہداف حاصل کرنے اور دوسروں کو تباہ کرنے کی جو کوششیں کرتے ہیں ہم سارا الزام ان کے سر ڈال دیں۔ افسوس اور دل گرفتگی کی حالت تو یہ ہے کہ جب ہمارے اپنے اس کام کا بیڑا اٹھا لیتے ہیں، وہ جو بدیسی تہذیب کے شیدائی ہیں، ان کی ثقافت اور فکر کا قبلہ و کعبہ دیار مغرب ہیں، یہ اسلامی ثقافت کو خشمگیں نگاہوں سے اور قرآنی زبان کو بنظر استخفاف دیکھتے ہیں۔ غیروں کی اس تہذیب نے امت مسلمہ کے فرزند کو صرف لسانی محبت کا اسیر ہی نہیں کیا بلکہ اس نے اسے فکری اور سیاسی آغوش میں بھی لے لیا ہے! آخر کیا وجہ ہے کہ ہماری نظروں میں ہمارا اپنا وجود اپنی اہمیت کھو چکا ہے؟ ہماری نگاہوں میں ہمارے ملک، ہماری زبان، ہمارے دین اور ہمارے قرآن کی زبان گر چکی ہے؟! امت آج جن سیاسی و اقتصادی اور دینی بحرانوں سے گزر رہی ہے انھوں نے فکر کو منجمد اور ثقافت کو لاغر کر دیا ہے جس کی نوبت اس مکروہ دست نگری اور غلامی تک پہنچ چکی ہے۔
Flag Counter