Maktaba Wahhabi

215 - 523
امن کا وسیع مفہوم: اہل اسلام! یہ ایک طے شدہ قاعدہ ہے: ’’إن الحکم علی الشيء فرع عن تصورہ‘‘ ’’کسی چیز پر حکم لگانا اس کے تصور ہی سے پھوٹتا ہے۔‘‘ امن اور اس کی حقیقت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس حقیقت کی پہچان جامعیت کے ساتھ ہو؟ تنگ نظری اور بیہودہ افکار سے خالی ہو۔ امن کا مفہوم صرف معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے اور پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی ضرورت اور تشکیل تک محدود نہ ہو، امن کا مفہوم صرف اس عام اور سطحی تصور تک محدود نہیں بلکہ حقیقت اس سے کہیں سخت اور معاملہ کہیں بڑھ کر ہے۔ ایک شہری کو، خواہ مرد ہو کہ عورت، چاہیے کہ وہ بذات خود امن پسند شہری اور سیکیورٹی مین ہو کیونکہ حقیقت میں سیکیورٹی مین ایک سچا شہری ہی ہوسکتا ہے۔ اگر ہم اپنے ذہن میں اس مفہوم کو قابل کفایت حد تک حاضر رکھیں تو اس کے بعد ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم امن کے مفہوم کی جامعیت جان سکیں، جس کی ابتدا پہلی نظر میں معاشرے کے عقیدے، اﷲ کے ساتھ گہرے تعلق اور ہر اس چیز سے دوری سے ہوتی ہے جو افرادِ معاشرہ کو امن کے بدلے خوف اور استقرار کی جگہ اضطراب میں مبتلا کر دے۔ لہٰذا امن کے متعلق سب سے پہلا فریضہ، اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت، الوہیت اور حکم میں شرک، اس کے دین کے انکار یا اس کی شریعت کو لوگوں کی واقعاتی زندگی سے دور، یا کسی بھی غلط بہانے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی شریعت سے لوگوں کے قانون کی مقابلہ آرائی سے بچنا اور دور رہنا ہے: { اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ} [الأنعام: ۸۲] ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘ امن کی یہ صورت سب سے پہلا مقصد اور مطالبہ ہے، اس کے ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہوسکتا ہے اور پھر ہر معاشرہ اس کا گہوارہ بن سکتا ہے، اور اﷲ تعالیٰ کا وعدہ بھی
Flag Counter