Maktaba Wahhabi

277 - 523
ایسا بن چکا ہے کہ وہ انسانی لباس میں چھپے ایسے بھیڑیے ہیں جو آپ کے ذرا لا پرواہ ہوتے ہی آپ کو کھا جائیں، اگر آپ ان کے سامنے ذرا جم کر کھڑے نہ رہیں گے تو وہ آپ پر جھپٹنے اور بد تمیزی پر اتر آنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ ان کی حالت تو اس مثال کی سی بن چکی ہے کہ ’’ اگر آپ دوپہر کے وقت انھیں نہ کھا گئے تو رات کو وہ آپ کو کھا جائیں گے۔ ‘‘ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات عجیب فلسفۂ اخلاق: ان کا عظیم فلسفۂ اخلاق یہ بن چکا ہے کہ دوسرے لوگوں سے اس زاویہ سے گفتگو کرو کہ تمھارے پاس کتنی جائیداد اور بنک بیلنس ہے ؟ سوسائٹی میں تمھارا کیا مقام ہے؟ اس کے ساتھ ہی ان کا خیال ہے کہ خوش حالی و سلامتی کے لیے یہی بہت کافی ہے، اور تعلیم وتربیت یا روحانی تہذیب کی بجائے مال و دولت ہی ہر چیز کی ضمانت ہے، اس کے علاوہ جتنے اخلاقِ فاضلہ اور خصال حمیدہ ہیں وہ سب پرانے وقتوں کی باتیں ہیں جنھیں زمانہ چاٹ چکا ہے۔ یہ سوچ ان لوگوں کی ہے جو اخلاقی قدروں سے عاری ہیں، جن کی نفسیات دنیا کے مال و دولت سے متأثر ہو چکی ہے، وہ صرف مال میں ہی ترقی اور اسی میں زوال سمجھتے ہیں، اور یہ گمان کیے ہوئے ہیں کہ روز مرہ کی زندگی اور اس کی معمول کی ڈگر میں جہاں بھی کوئی ذرا بھر بھی خلل یا نقص آئے تو مال کے ذریعے اس کی اصلاح و ترمیم کی جا سکتی ہے، اور اگر کہیں کوئی زنگ لگ جائے تو خاندانی حسب و نسب اور اپنے مالی جاہ و جلال سے اسے صیقل کیا جا سکتا ہے، یہ ان مادہ پرست لوگوں کا خیالِ خام اور زعمِ باطل ہے۔ اصل حقیقت: اگر کسی مسلمان کو اس بات کا ادراک ہو جائے کہ دوسرے مسلمانوں کا اس پر پہلا حق یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں لوگوں کا غم بھی رکھے، صرف اپنی ہی ذات کو نہ اٹھائے پھرے، اگر کسی نے یہ کر لیا تو وہ دوسروں پر فوقیت لے گیا اور اس کی حقیقی عظمت یہ ہے کہ وہ لالچ و طمع اور تکبّر جیسی عاداتِ قبیحہ پھلانگ کر دوسروں پر فوقیت حاصل کر لے، اور اگر ہر شخص ایسا ہو جائے اور ان میں اسلام کے
Flag Counter