Maktaba Wahhabi

278 - 523
زیرِ سایہ فراخی و وسعتِ قلبی، تواضع و انکساری، محبت اور شفقت و پیار کا مادہ پیدا ہو جائے تو سمجھیں کہ اب سب لوگ ہی آزاد ہو گئے ہیں۔ رہا معاملہ سوسائٹی میں مقام و مرتبہ، مال ودولت اور جاہ و منزلت کا، تو یہ سب آنی جانی چیزیں ہیں، آج آپ کے پاس ہیں کل نہ ہوں گی، اور ان چیزوں کا تعلق محض ظاہر سے ہے، دلوں کے باطنی امور سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ ارشادِ الٰہی ہے : { فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآئً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ} [الرعد: ۱۷] ’’ جھاگ تو ناکارہ ہو کر چلا جاتا ہے، لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے۔‘‘ حضرت وہب بن منبہ نے حضرت مکحول کو لکھا : ’’ حمد وثنا کے بعد عرض ہے کہ لوگوں میں آپ نے اپنے ظاہری عمل سے عزت و شرف اور قدرو منزلت حاصل کر لی ہے، اب اس کے ساتھ ہی اپنے اعمال کے باطن یعنی خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ تعالی کے ہاں بھی عزت و قدر حاصل کرو، اور یہ بات ذہن نشین کر لو کہ ان ہر دو مقامات کا آپس میں باہم تنازع رہتا ہے کہ میں ہی غالب آؤں۔‘‘[1] اللہ کے بندو! اسی طرح صاحبِ عظمت اور عام بازاری آدمی، مال دار اور فقیر آدمی میں ہر چیز میں باہمی اتصال صرف تواضع کی وجہ سے ہو سکتا ہے، خصوصاً جب ہر شخص درہم و دینار کے حوالے سے ہٹ کر سوچنے لگے تب جا کر وہ نوبت آتی ہے جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ پورا مسلم معاشرہ ایک جسم ایک جان کا منظر پیش کرنے لگتا ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم ہی بخار و تکلیف اور رت جگے میں مبتلا ہو جا تا ہے۔[2] اخلاق کی اساس۔۔۔ تواضع اور انکساری: تواضع و انکساری ایک ایسا اخلاقی نمونہ ہے جس کی مسلمانوں میں تو بجا طور پر توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ در اصل تمام معاشروں کے اخلاقِ عامہ کی اساس و بنیاد ہے اور ان کے ما بین حسنِ اتصال
Flag Counter