Maktaba Wahhabi

357 - 523
کہ آج یہ افواہیں ایک اجتماعی و سماجی اور معاشرتی مسئلہ بن چکی ہیں اور عالمی سطح پر پھیل گئی ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہو گا، اس کے خطرات تمام بشری معاشروں پر منڈلا رہے ہیں جن کی تشخیص و علاج کی فوری ضرورت ہے۔ اس کی جڑیں کاٹنے، اس سے لوگوں کو خبر دار کرنے اور اس کے اسباب و محرّکات کی بیخ کنی کرنے کی کوشش کریں تا کہ یہ بیماری کہیں امت کی معنوی روح کو نہ ختم کر دے، جو افراد کی کامیابی کا ستون، معاشروں کے امن واستقرار کی بنیاد اور مختلف معاشروں اور تہذیبوں کی عزت و عظمت اور شان و شوکت کا ذریعہ ہے۔ افواہوں کی تاریخ: انسانی تاریخ کا استقرا اور اس پر گہری نظر رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ افواہوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ پرانی ہے، بلکہ تمام تہذیبوں کی گود میں اس نے پرورش پائی ہے اور آغازِ تاریخ ہی سے لے کر یہ افواہیں تمام معاشروں کی تہذیبی ترقی اور معاشرتی ڈھانچوں کے لیے قلق و اضطراب اور پریشانیوں کا باعث بلکہ مصدر و منبع رہی ہیں۔ اسلام کا موقف: جب اسلام آیا تو اس نے ان افواہوں اور ان کے پیچھے کام کرنے والوں کے بارے میں بڑا سخت موقف اختیا ر کیا، کیونکہ ان کے پھیلانے میں مسلم معاشرے، اور اس کے افراد میں اتحاد و اتفاق اور ان کی سلامتی پر اس کے بڑے بُرے اور منفی اثرات پڑتے ہیں، یہی نہیں بلکہ اسلام نے افواہوں کی نشرو اشاعت کو ذلیل حرکت، منفی کردار، عاداتِ کریمہ اور اخلاقِ جمیلہ کی ضد قرار دیا، اور اجتماع و اتحاد، پیار و محبت، بھائی چارے، باہمی تعاون، صدق وصفا اور رحم وکرم کی اسلام اور شریعت ِ اسلامیہ نے ترغیب ہی نہیں دلائی بلکہ تاکید بھی کی ہے، ان افواہوں کو گھڑنے اور پھیلانے کو عادات جمیلہ و شمائلِ جلیلہ کے منافی قرار دیا ہے۔ کیا واقعی یہ افواہیں ان اخلاقی قدروں کو برباد اور اعلیٰ صفات کی عمارت کو مسمار نہیں کرتیں؟ اسی طرح اسلام نے غیبت و چغلی کرنے، لوگوں کی عزت و آبرو کے در پے ہونے، کذب بیانی و دروغ گوئی، بہتان تراشی اور لگائی بجھائی کرنے سے بھی شدت کے ساتھ روکا ہے۔ کیا افواہیں اسی طرح پیدا نہیں ہوتیں؟
Flag Counter