Maktaba Wahhabi

389 - 523
’’بیشک رات کے اٹھنے میں دل اور زبان کا خوب میل ہوتا ہے اور ( دعا یا قراء ت پر ) بات خوب ٹھیک نکلتی ہے۔‘‘ ’’ ناشئۃ اللیل‘‘ سے مراد رات کی گھڑیاں اور اوقات ہیں، اور وہ دن کی نسبت تلاوتِ قرآن پر دلجمعی کے لیے زیادہ مناسب ہیں کیونکہ دن تو لوگوں کے دوڑ دھوپ کرنے اور مختلف بے ہنگم آوازوں کے بلند ہونے کا وقت ہوتاہے، لہٰذا دن کو روزہ رکھنا خلوت کی ایک صورت ہے اور رات کو قیام اور تلاوتِ قرآن حلاوت و شیرینی کا باعث ہے۔ رمضان اور دعائیں: اﷲ کے بندو! ماہِ رمضان ایک وسیع میدان ہے جس کے دوران میں بندہ اپنے نفس کو شب زندہ داری و قیام اللیل کے لیے تیار کرتا ہے، اور اسے اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ اپنی حاجات و ضروریات کے لیے صرف اﷲ تعالیٰ قاضی الحاجات کی طرف رجوع کرے، کیونکہ اس کے سوا کوئی ملجا و ماو ی نہیں اور وہی قاضی الحاجات ہے، وہ فیصلے کرتا ہے، اس پر کوئی فیصلہ نہیں ٹھونسا جا سکتا۔ رات کا آخری تہائی حصہ اﷲ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے شایان شان تنزیل الٰہی کا وقت ہے، جس میں وہ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے : (( ھل من سائل فأعطیہ؟ ھل من داع فأستجیب لہ؟ ھل من مستغفر فأغفرلہ؟ )) [1] ’’ کیا کوئی سائل ہے کہ میں اُ سے عطا کروں ؟ کیا کوئی دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کیا کوئی بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اُسے بخشوں ؟‘‘ کیا ہم میں سے ہر ایک نے اس عظیم وقت کو نفع آور کام میں لگانے کے بارے میں سوچا ہے؟ جبکہ گمانِ غالب کی رو سے یہی قبولیتِ دعا کا وقت ہے۔ رات کے اس آخری تہائی حصہ میں لوگوں کا کیا حال ہوتا ہے؟ کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کی شکایت تو کرتے ہیں مگر ان کی نظروں سے یہ وقت اوجھل ہے، کتنے ہی لوگ وہ بھی ہیں جو کرب وبلا میں مبتلا ہیں مگر ان کی نظروں میں یہ وقت نہیں آیا جو حاجت برآری کا وقت ہے، اور کتنے ہی بیمار و زخم خوردہ لوگ ہیں جنھیں اپنی بیماری کی
Flag Counter