Maktaba Wahhabi

445 - 523
رمضان کے بعد شوال کے چھے روزے ایک سال کے روزوں کے مانند ہونے کی یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکی کو دس گنا قرار دیا ہے۔ فرمان ربانی ہے: { مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا} [الأنعام: ۱۶۰] ’’جو شخص نیکی لے کر آئے گاتو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہوں گی۔‘‘ رمضان کے روزے دس گنا ہو کر دس مہینوں کے برابر ہو جاتے ہیں اور چھے روزے ساٹھ دنوں کے برابر۔ اس طرح پورے سال کے تین سو ساٹھ دنوں کے روزوں کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ ان روزوں میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہ عید کے فوراً بعد اور پے درپے رکھے جائیں، تاہم اگر کوئی انھیں جدا جدا کر کے بھی رکھ لے تو کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح انھیں مہینے کے درمیان اور آخر میں رکھنا بھی درست ہے۔ یہ روزے واجب نہیں ہیں۔ اس بات کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو زبان زد عوام ہے کہ اگر کوئی انہیں ایک سال رکھ لے تو پھر آئندہ سالوں کے لیے انھیں رکھنا واجب ہو جاتا ہے۔ بلکہ یہ سنت ہیں، جو انھیں رکھے اسے ثواب ملے گا اور جو انھیں نہ رکھے اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ اور جو ہر سال باقاعدگی کے ساتھ انھیں رکھتا ہے، پھر کسی دوسرے سال میں بیماری یا سفر کے سبب انھیں نہیں رکھ پاتا تو ان کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، چاہے وہ انھیں نہ رکھے۔ کیونکہ فرمان نبوی ہے: (( إذا مرض العبد أو سافر کتب لہ ما کان یعمل صحیحاً مقیماً )) [1] ’’جب کوئی انسان بیمار ہوجائے یا سفر کرے تو جو اعمال وہ صحت اور اقامت کے دوران میں کیا کرتا تھا وہ اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیے جاتے ہیں۔‘‘ یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہے کہ شوال کے چھے روزوں کے اجر کے حصول کی یہ شرط ہے کہ آدمی رمضان کے سارے روزے رکھے تب کہیں جا کر یہ سمجھا جائے گا کہ اس آدمی نے سارے سال کے روزے رکھے ہیں۔ دیگر نفلی روزے: اگر کوئی شخص مزید اجر اور زیادہ ثواب کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ ہر مہینے کی تیرہ چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے پر ہمیشگی کرے۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روزوں
Flag Counter