Maktaba Wahhabi

456 - 523
کہ نماز نے لوگوں کے دلوں اور زندگیوں پر وہ اثر نہیں ڈالا جو ڈالنا چاہیے تھا۔ کیا ایسے لوگ بھی نماز ادا کرنے والے ہیں جن کو یہ نماز برائی، بے حیائی، عقیدے کی مخالفت، سنت کے ساتھ عداوت، مبادیات اسلام کی خلاف ورزی، سود خوری، زنا کاری، رشوت ستانی، دھوکے دہی، منشیات کے استعمال، حقوق العباد میں سستی، لوگوں کی عزتیں اچھالنے اور دیگر حرام کاموں سے بالکل منع نہیں کرتی؟ کیا ایسے لوگوں نے نماز قائم کی ہے اور اس کا حق صحیح طور سے ادا کیا ہے؟ اﷲ کی قسم! اگر یہ اس کے حقوق صحیح طور سے ادا کرتے تو تمام حرام کردہ کاموں سے رک جاتے اور شریعت کی تمام خلاف ورزیاں چھوڑ دیتے، لیکن، لاحول ولاقوۃ إلا باﷲ۔ ہمارے ہاں تو نماز کا جوہر ہی ضائع کر دیا گیا ہے! امام ترمذی اور نسائی نے جبیر بن نفیر کی حدیث بیان کی ہے کہ لوگوں سے سب سے پہلے خشوع کو اٹھا لیا جائے گا۔[1] قریب ہے کہ آپ کسی جامع مسجد میں داخل ہوں تو آپ کو ایک آدمی بھی خشوع کرنے والا نظر نہ آئے۔ واللہ المستعان۔ اے امت محمدیہ! آج ہم اس عظیم فریضے کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں؟ جسم زمین کی طرف جھکتے ہیں جبکہ دل غافل اور خیالات دنیاوی امور میں مگن ہیں مگر جس پر اللہ رحم فرمائے! لمحۂ فکریہ: اے نمازی مسلمانو! کیا اس عظیم فریضے اور دیگر فرائض میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشانات کی طرف لوٹنے کی کسی کو سچی لگن ہے؟ تاکہ امت اس خطرناک شکست کے بعد، جس میں یہ اپنے آپ کو مضبوط رکھنے والے عناصر کھو بیٹھی ہے، اپنی قوت اور سطوت کو ایک مرتبہ پھر بحال کر سکے؟ کیا شکست و پسپائی کے کڑوے گھونٹ پینے والی امت کو یہ لائق نہیں کہ وہ ان اسباب اور وجوہات کی کھوج لگائے جن کی بنا پر وہ اس شکست و ریخت پر غالب آسکے؟ یقینا یہ تمام اسباب اسے اسلامی شعائر ہی میں ملیں گے، اور ان شعائر میں سب سے عظیم نماز ہے جو افراد کی تربیت کرنے، معاشروں کی تہذیب و تنقیح، حالات کی اصلاح، کمزوری و شکست کے اسباب کا قلع قمع کرنے اور امت میں کم حوصلگی کا خاتمہ کرنے والی ہے۔
Flag Counter