Maktaba Wahhabi

463 - 523
کریں، نصاب میں نظر ثانی کریں۔ اسی طرح زندگی کے نظاموں اور طور اطوار کا بھی جائزہ لیں۔ مبادیات اور نصاب کا جائزہ لینا ایک بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی بہتر ان مبادیات اور نظاموں کے قوموں اور افراد پر مرتب ہونے والے اثرت اور نتائج کا جائزہ لینا ہے۔ اور سب سے زیادہ نظر ثانی کرنے اور جائزہ لینے کے مستحق موجودہ زمانے کے اصول و مبادیات، نصابات اور نظام و سیاست ہے۔ مبادیاتِ عصر کی تباہ کاریاں: آغاز میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صنعت، زراعت، تجارت، کیمیونیکشن، میڈیکل، ادویہ سازی، ایجادات، اختراعات اور مصنوعات کے بہت سارے مثبت پہلو اور خوبیاں بھی ہیں جنھیں اختیار کرنا اور ان میں مزید کی طلب اور حرص رکھنا ایک مستحسن فعل ہے، لیکن ان اصول اور تجاویز کا انسانیت سازی، نسلوں کی تعمیر، حقوق کے احترام اور عدل کے نفاذ کے ساتھ کتنا تعلق اور ان کا کیا اثر ہے؟ ان اصول پر کاربند اکثر حضرات پیسنے والے آلات اور چکیوں کے مانند ہیں، گویا ان سے صفت انسانیت بالکل نکال دی گئی ہے۔ جمہوریت پسندی، آزادی کے مفہوم اور انسانی حقوق وغیرہ کے مقرر کردہ خوشنما اصول و ضوابط کے بلند و بانگ نعرے لگائے جاتے ہیں، پھر انھیں چند خاص گروہوں یا علاقوں کے تنگ دائرے تک محدود کر کے رو بعمل لایا جاتا ہے۔ ان مثالوں اور کارروائیوں کے درمیان کھلے تناقض پر ٹھنڈے دل سے رک کر غور کرنا چاہیے۔ موجودہ تاریخ انتہائی سیاہ اور تاریک ہے، جو سطوت، تکبر، تذلیل، توہین، قوموں اور ملکوں پر جبر و استبداد اور غلبے اور اجارہ داری کی تیرگی سے اٹی پڑی ہے۔ مبادیاتِ عصر پر غور کی ضرورت: امانتداری، انصاف پسندی، حق کی تلاش میں عقل مند اور سنجیدہ رویے، تمام انسانیت کے لیے خیر خواہی، نظریات پر نظر ثانی اور ان بنیادی اسباب کے متعلق درست انداز فکر اپنانے کا، جو بہت ساری قوموں میں نفرت بھر رہے ہیں اور تشدد کو جنم دے رہے ہیں، یہ تقاضا ہے کہ اس بات پر غور و فکر کیا جائے کہ یہ کونسے اصول اور مبادیات ہیں جو نفرت پیدا کر رہے ہیں؟ یہ کونسے طریقے ہیں جو دوسروں کو ذلیل اور انھیں نیچا و حقیر دکھانے کی اجازت دیتے ہیں؟ یہ کیسے قواعد اور نصاب ہیں جو سطوت اور اکڑ بازی کے بیج بو رہے ہیں؟ یہ کیسی اقدار ہیں جو ان مبادیات کو وجود بخش رہی ہیں یا کونسی پالیسیاں اور
Flag Counter