وجہ سے حرام ہوئی تھیں یہاں تک کہ اس کے لیے اپنی بیوی کے پاس جانا بھی جائز ہو جاتا ہے۔ اگر حاجی ان کاموں میں تقدیم و تاخیر کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یوم النحر میں جس کام کی تقدیم و تاخیر کے متعلق بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی جواب دیا:
(افعل ولا حرج )) [1] ’’کرلو کوئی حرج نہیں۔‘‘
وقوفِ منیٰ اور ایام تشریق کے اعمال:
اے مہمانانِ رحمان! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آج کی رات اور کل کا دن تمھارے لیے منیٰ میں گزارنا واجب ہے۔ کل گیارہ ذوالحج کا دن بابرکت ایام تشریق کا پہلا دن ہے جن کے بارے ہیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ} [البقرۃ: ۲۰۳]
’’اور اﷲ کو چند گنے ہوئے دنوں میں یاد کرو۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’ان سے مراد ایام تشریق ہیں۔‘‘[2]
ان کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( أیام التشریق أیام أکل، وشرب، وذکر اللّٰه )) [3]
’’ایام تشریق کھانے پینے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کے دن ہیں۔‘‘
لہٰذا ان ایام مبارکہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے؛ رسول کریم کی سنت اپناتے ہوئے اور سلف صالحین کے طریقے پر چلتے ہوئے بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور تکبیریں پڑھو۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان فضیلت والے دنوں میں تکبیریں کہا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں ہر بلند جگہ پر تکبیر کہتے، لوگ بھی آپ کی تکبیر سن کر اللہ أکبر کہتے تو منیٰ کی ساری وادی اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھتی:
( اللّٰه أکبر، لا إلہ إلا اللّٰه ، واللّٰه أکبر وللّٰه الحمد، اللّٰه أکبر کبیرا والحمد للّٰه کثیرا، وسبحان اللّٰه بکرۃ وأصیلا )) [4]
|