Maktaba Wahhabi

92 - 523
جس کو کسی بھلائی کا علم ہو جائے تو وہ اس کو جلد از جلد حاصل کرے، کیونکہ شائد اس کی خواہش اس پر غالب آجائے۔ اگر گزرتے وقت میں کوئی غنیمت اس کے ہاتھ آجائے تو اس کے لیے بہتر ہوگا وگرنہ اسے نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔ جو بے کاری پر خوش ہوتا ہے وہ عمل کرنے میں بزدل ہو جاتا ہے۔ انسان کے پاس خواہ اعمال کے فضائل اور اجر کا کتنا زیادہ علم ہی کیوں نہ ہو اور اس کی نیت بھی سچی ہو وہ اس وقت تک اس سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا جب تک ہر موقع سے فائدہ نہ اٹھائے۔ پھر عموماً نیک اعمال لوگوں کا اتنا وقت بھی نہیں لیتے جتنا وقت لوگوں کے خود ساختہ اعمال لے لیتے ہیں کہ جن کی مشقت اٹھاتے اٹھاتے ان کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ وقت دوڑ رہا ہے: اے مسلم بھائی! تجھے علم ہونا چاہیے کہ تم دوڑ کے میدان میں ہو اور اوقات پوری رفتار کے ساتھ دوڑ رہے ہیں، سستی اور کسل مندی سے بچنا، جو کھو جائے اس کا سبب سستی ہی ہوتی ہے اور جو حاصل ہو وہ صرف عزم اور جد و جہد کے ساتھ ممکن ہوتا ہے۔ دونوں معاملات کا پھل یہ ہے کہ فضائل کو حاصل کرنے کے لیے مشقت اٹھانے والا حقیقت میں راحت پاتا ہے جبکہ ان کے حصول میں سستی کرنے والا درحقیقت مشقت اور رسوائی کماتا ہے۔ دنیا آخرت کی کھیتی ہے: اے بندہ رحمن! اللہ تمھاری حفاظت کرے۔ اگر سمجھ ہے تو ہوش کے ناخن لو۔ یہ دنیا آباد کاری کے لیے نہیں بلکہ یہ ایک محض گزرگاہ ہے۔ لوگ ان چیزوں کے فقدان پر افسوس کرتے ہیں جو ان کے لیے کارآمد اور مفید ہوں، جبکہ اس وقت ان کا کفِ افسوس ملنا شائد ان کی کوتاہی کی دنیا میں سزا ہو۔ امام ابن جوزی رحمہ اللہ اپنے زمانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ’’بغداد میں قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جب بھی جَو آتے ہیں ریٹ بڑھ جاتا ہے، اور لوگ غلہ خریدنے کے لیے دھکم پیل کرتے ہیں۔ جو ہر سال اپنی غذائی ضروریات کے لیے غلہ بو لیتا ہے اس کی خوشی قابل دید ہوتی ہے، اور جو ریٹ دو گناہ ہونے سے پیشتر
Flag Counter