Maktaba Wahhabi

155 - 612
وسعتِ ظرفی و دریا دلی اختیار کرنا، مکر و غداری سے اجتناب، دھوکا و فریب کاری سے دامن کشی، فحاشی و گناہ کے امور سے گریز، حرام و خبیث مشروبات سے بچاؤ، حرام خوری، دروغ گوئی، بہتان تراشی، بخل و کنجوسی، بزدلی وریاکاری، تکبر و نخوت، خود پسندی، ظلم و زیادتی، حسد و حقد، کینہ اور تہمت بازی سے دامن کشاں رہنا وغیرہ حسنِ اخلاق کے زمرے میں آتا ہے۔‘‘ مومن اور کافر کے اخلاق کا فرق : اخلاقِ حسنہ مومن کو دنیا و آخرت میں نفع پہنچاتا ہے، اور اللہ کے نزدیک اس کے درجات بلند کرتا ہے۔ مومن کے اخلاقِ حسنہ سے ہر نیک و بد فائدہ اٹھاتا ہے۔ جبکہ کافر دنیا میں ہی اپنے اخلاق کا بدلہ پالیتا ہے اور آخرت میں اس کے نصیب میں کچھ نہیں ہوتا۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عبداللہ بن جدعان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ مہمان نوازی، غریب پروری اور زمانے کے ستائے ہوئے لوگوں کے ساتھ تعاون کیا کرتا تھا، کیا اسے اس کے اعمال کا کوئی فائدہ پہنچے گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( لَا، اِنَّہٗ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْلِيْ خَطِیْئَتِيْ یَوْمَ الدِّیْنِ )) [1] ’’نہیں، کیونکہ اس نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ اے اللہ! قیامت کے دن میرے گناہ بخش دینا۔‘‘ حسنِ اخلاق۔۔۔ قرآن کی نظر میں: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مقدس میں ہر اچھے اخلاق کا حکم فرمایا ہے اور ہر برے اخلاق سے منع کیا ہے، اسی طرح سنتِ رسول اللہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی ہر اچھی عادت کا حکم ہے اور بری عادات سے روکا گیا ہے۔ اس موضوع کی آیات بہت زیادہ ہیں جن میں سے بعض آیات کا ذکر کیا جاتا ہے، مثلاً: (1) ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ﴾ [الأنعام: ۱۵۱] ’’ظاہری و باطنی (کھلے اور پوشیدہ) فحاشی کے کاموں کے قریب بھی نہ جاؤ۔‘‘ (2) ﴿ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ
Flag Counter