Maktaba Wahhabi

169 - 612
کرو تو مردانِ میدان کی تاریخی باتیں کرو، کیونکہ یہ خوبصورت تاریخی روایات اکتاہٹ کم کر دیں گی۔‘‘[1] فائدہ مند تفریح: سلف صالحینِ امت کی تفریح لا یعنی امور پر مشتمل نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ ایسی تفریح تھی جس کے نتیجے میں بہت سارے فوائد حاصل ہوتے تھے اور ان میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہوتی تھیں۔ ان کی تفریح میں نہ لوگوں کا مذاق اڑانا شامل تھا نہ دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھانا، نہ ان کی تفریح میں کسی قسم کی غیبت و چغلی تھی، نہ کسی پر افترا اور جھوٹ باندھنا تھا۔ ایسی تفریح جس میں کوئی دنیوی فائدہ یا دینی منفعت نہ ہو وہ محض انسانی زندگی کو چاٹنے والی دیمک ہے۔ جائز تفریح یہ نہیں کہ سڑکوں پر آوارہ گردی کی جائے، بازاروں میں عورتوں کو تاڑا و چھیڑا جائے، پردہ دار خواتین کو ستایا جائے، اور نہ یہ تفریح ہے کہ عورتوں کا پیچھا کر کے انھیں پریشان کیا جائے۔ سڑکوں بازاروں کے دائیں بائیں ڈیرہ لگا لینا یا قہوہ خانوں میں جمے رہنا کوئی تفریح نہیں ہے۔ اسلام میں تفریح کا تصور عام تصورِ تفریح سے بالکل مختلف ہے، اسلام میں تفریح کے ساتھ یہ قاعدہ بھی وابستہ ہے کہ وہ تفریح انتہائی معصومیت بردوش، بداخلاقی سے دور، مرد و زن کے اختلاط سے مبرا، حرام نظر بازی سے پاک اور تمام شرعی خلاف ورزیوں سے خالی ہو۔ پاکیزہ نمونے: سلف صالحینِ امت کے اقوال سے پتا چلتا ہے کہ نفسِ انسانی کی دو حالتیں ہیں۔ کبھی وہ چست اور کارِ خیر کے لیے بھر پور آمادہ ہوتا ہے، اور کبھی وہ تھکاوٹ و اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے۔ سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’دلوں میں خواہش و آمادگی ہوتی ہے اور کبھی اکتاہٹ اور گریز کی حالت ہوتی ہے۔ جب خواہش و آمادگی کی حالت دیکھو تو کچھ کر گزرو اور جب پژمردگی و گریز کی حالت محسوس کرو تو اسے تھوڑا سستانے کے لیے چھوڑ دو۔‘‘[2]
Flag Counter