Maktaba Wahhabi

170 - 612
لیکن سلف صالحینِ امت اپنے اوقاتِ تفریح میں بھی اپنے نفس کو اس کی ہر گز اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ حقوق اﷲ میں کمی بیشی کا ارتکاب کرے۔ نماز کے اوقات میں کوئی تفریح نہیں ہے، کیونکہ یہ تو حقوق اللہ پر زیادتی ہے، اور اوقاتِ کار میں بھی تفریح نہیں، کیونکہ یہ حقوق العباد پر زیادتی ہے۔ امتِ اسلامیہ کے افراد کی زندگی میں تفریح ہی سب کچھ نہیں ہے کہ صبح وشام صرف یہی کام ہو، بلکہ ایک محدود پیمانے پر تفریح ہے تاکہ وہ کہیں سنجیدہ امور پر نہ چڑھ دوڑے، اور نہ دوسرے واجبات اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی برتنے پائے۔ انسانی زندگی اس سے کہیں بلندو بالا اور قیمتی چیز ہے کہ اسے بالکل لا یعنی امور ہی میں ضائع کر دیا جائے یا باطل قسم کے کھیل تماشے میں برباد کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فعل سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ تیر اندازی کے مقابلے کیا کرتے تھے اور جب میدان میں اترتے تو مردانگی کے جو ہر دکھاتے تھے۔ سلمہ بن عبد الرحمن رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں انحراف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ وہ اپنی مجلسوں میں شعر گوئی کر لیتے تھے۔ اپنے عہدِ جاہلیت کے واقعات بھی عبرت کے لیے بیان کر لیا کرتے تھے، لیکن اگر دین کے معاملے میں کسی سے کوئی اونچی نیچی بات ہو جاتی تو فوراً ان کی آنکھیں پھر جاتی تھیں۔‘‘[1] اسوۂ حسنہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مزاح فرما لیا کرتے تھے اور کھیل بھی لیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے جنت میں داخل کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( یَا أُمَّ فُلَانٍ! إِنَّ الْجَنَّۃَ لَا یَدْخُلُھَا عَجُوْزٌ )) [2] ’’اے فلاں کی ماں! جنت میں کوئی بوڑھی عورت داخل نہیں ہوگی۔‘‘ وہ خاتون پریشان ہو گئی اور رونے لگی اور سمجھی کہ شائد میں بھی جنت میں داخل نہیں ہو سکوں
Flag Counter