Maktaba Wahhabi

233 - 612
ذکرِ موت اور فکرِ آخرت: حصولِ کمال بڑی عزیز دولت ہے، مگر کمال حاصل کرنے والے کامل بہت ہی قلیل و نادر الوجود ہوتے ہیں۔ ہر عقلمند کا کام یہ ہے کہ وہ ہر شب و روز میں بکثرت ذکرِ موت اور فکرِ آخرت کرے اور زبان کے ساتھ ساتھ دل بھی اس عمل میں مشغول ہو تا کہ وہ دنیاوی لالچ و طمع پر کوڑے برساتا جائے۔ موت کی بکثرت یاد آدمی کو گناہوں سے محفوظ کر دیتی ہے اور اللہ کے حکم سے یہ ہلاکتوں سے بھی بچا لیتی ہے۔ دوسروں کی موت اور قبر تمھیں تمھاری موت اور قبر دکھاتی ہے۔ اللہ کی قضا پر صبر و رضا سے مشکل کوئی کام نہیں اور نہ اس سے افضل کوئی عمل ہے۔ دنیا میں سے جو چیز آپ کے ہاتھ سے نکل گئی اس پر غم زدہ نہ ہوں، اس مصیبت کو یوں سمجھو کہ تمھیں پہنچی ہی نہیں اورجو تم نے مانگا مگر ملا نہیں اسے یوں باور کر لو کہ تم نے مانگا ہی نہیں تھا۔ جس نے اس دنیا کے سمندر پر غور کیا اور دیکھا کہ موجیں باہم کیسے ملتی اور بچھڑتی ہیں، وہ شخص بلا و مصیبت کے آنے پر غمگین نہیں ہوتا اور کشادگی آنے پر خوشی میں اپنے آپے سے باہر نہیں ہوتا۔ غافل انسان: سب سے زیادہ غافل وہ انسان ہے جو ساٹھ سال گزار کر ستر سالوں کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ان دونوں عددوں کے ما بین موت کی جائے معرکہ ہے اور جو جائے معرکہ میں اتر جائے وہ مقابلہ و ملاقات کے لیے تیار ہو جاتا ہے، اب اس کے جو دن بھی زندہ رہ کر گزر رہے ہیں یہ سب غنیمت ہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( لَا یَزِیْدُ الْمُؤْمِنَ عُمُرُہٗ إِلَّا خَیْرًا )) [1] ’’مومن کو اس کی عمر خیر و بھلائی میں اضافے سے نوازتی ہے۔‘‘ دنیا ایسی چیز ہے کہ اس میں سے جو تمھارا نصیب ہے وہ تمھیں ضرور ملے گا، چاہے تم کمزور و ناتواں ہی کیوں نہ ہوں اور جو چیز تمھارے مقدر میں نہیں ہے وہ تمھیں ہر گز نہیں ملے گی تم چاہے کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، جو تمھارے خلاف ہونے والا ہے اسے تم اپنی تمام تر قوتوں کے باوجود بھی روک نہیں سکتے اور عقل و دین سے بہتر کوئی مال نہیں ہے۔ و صلی اللّٰه علی نبینا محمد و علی آلہ و سلم۔
Flag Counter