Maktaba Wahhabi

289 - 612
’’تم اسے معمولی سمجھتے ہو جبکہ اللہ کے نزدیک یہ بہت ہی بڑا ہے۔‘‘ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی زبان پکڑ کر فرمایا کرتے تھے: ’’ ھٰذَا الَّذِیْ أَوْرَدَنِيْ الْمَھَالِکَ‘‘[1] یہی ہے جس نے مجھے کئی ہلاکت خیز مقامات تک پہنچایا۔‘‘ یہ ان کی تواضع و انکساری اور شدید محاسبہ نفس کی علامت ہے۔ غیبت کے نقصانات: غیبت کے نقصانات بہت پھیل چکے ہیں اور اس کے خطرات عام ہو گئے ہیں۔ یہ ہماری مجلسوں اور بیٹھکوں میں ہمارے دستر خوان کی رونق اور ہماری راتوں کی گفتگو کا میوہ اور وقت گزاری کا ذریعہ بن چکی ہے۔ یہی ہمارا غیظ و غضب جھاڑنے، حسد و بغض دکھانے اور حقد و نفرت ظاہر کرنے کا موثر ہتھیار بھی ہے۔ غیبت کرنے والا سمجھتا ہے کہ وہ دوسروں کی غیبت کر کے اپنے عیوب کی پردہ پوشی کر رہا ہے اور وہ اسے نقصان پہنچا رہا ہے، جس کی وہ غیبت کر رہا ہے، جبکہ وہ یہ نہیں جانتا کہ غیبت کے اضرار و نقصانات اور برائیوں میں سے وافر حصہ تو خود اسے پہنچ رہا ہے، کیونکہ غیبت کرنے والا ظالم ہے اور جس کی غیبت یہ کر رہا ہے وہ مظلوم ہے، قیامت کے دن اللہ حاکم و عادل کے سامنے غیبت کرنے والا اور جس کی غیبت کی گئی دونوں کو کھڑا کر دیا جائے گا، مظلوم اپنے رب سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو بیان کرے گا اور اللہ اس غیبت کرنے والے ظالم کی نیکیوں میں سے اس مظلوم کو دے کر اسے راضی کرے گا۔ اگر ظالم کی نیکیاں کم پڑ گئیں تو غیبت کے گناہ کے برابر مظلوم کے گناہ اٹھا کر اس غیبت کرنے والے ظالم کے نامۂ اعمال میں ڈال دیے جائیں گے۔ یہ اس دن ہوگا جس دن کوئی باپ اپنے بیٹے کو اور کوئی گہرا دوست اپنے دوست کو ایک نیکی بھی دینے کو تیار نہیں ہوگا، ہر کوئی نفسی نفسی (میری جان، میری جان) پکار رہا ہوگا۔ حدیث شریف میں ہے: (( اَلرِّبَا نَیِّفٌ وَّسَبْعُوْنَ بَابًا، أَیْسَرُھَا مِثْلُ أَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہٗ، وَإِنَّ أَرْبَی
Flag Counter