Maktaba Wahhabi

339 - 612
معاملہ میں میرے جتنا ہرگز نہیں آزمایا۔ اللہ کی قسم! جب سے میں نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہی ہے، تب سے آج تک میں نے کبھی جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولا، اور مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ میری باقی زندگی میں بھی وہ مجھے جھوٹ سے محفوظ رکھے گا۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے مہاجرین کے عمدہ اوصاف میں سے ایک صدق بھی بیان کیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: ﴿ لِلْفُقَرَآئِ الْمُھٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ﴾ [الحشر: ۸] ’’(مالِ فیٔ) ان فقرا مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکال دیے گئے وہ اللہ کے فضل اور رضا مندی کے متلاشی ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں اور یہی سچے لوگ ہیں۔‘‘ سچائی کے بارے میں قرآن و سنت کی تعلیمات: مسلمانو! صدق ایسی صفت ہے، جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں اور اہلِ عقل و دانش بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی بعثت کے شروع میں صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف لوگوں کو دعوت دی تو صدق کی بھی تعلیم فرمائی۔ سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ہرقل نے مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سوال کیا تو پوچھا کہ وہ تمھیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ وہ کہتے ہیں: صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہ کرو اور اپنے آبا و اجداد کے دین کو چھوڑ دو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدق و سچائی، عفاف و پاکدامنی اور صلہ رحمی کی تعلیم فرماتے ہیں۔‘‘[2] اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ
Flag Counter