Maktaba Wahhabi

466 - 612
پڑوسیوں، اور پہلو کے ساتھی (بیوی) سے اور راہ کے مسافر سے، اور ان (غلاموں) سے جن کے مالک تمھارے ہاتھ ہیں، یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی بھگارنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘ سعادتِ مومن: جب ہم اس ماہِ مبارک تک پہنچ جاتے ہیں تو ہمارا رواں رواں سعادت و خوشی سے جھوم جھوم جاتا ہے۔ دل خوف و امید کے ملے جلے جذبات کے مابین اور زبانیں ان دعاؤں سے تر ہوتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے، آپ کے اور تمام مسلمانوں کے روزے اور قیام اللیل قبول فرمائے۔ ماہِ رمضان کے گزرے ایام کی عبادات قبول فرمائے اور اس کے بقیہ ایام میں ہمیں برکات عطا فرمائے۔ مبارک و خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جن کے گناہوں کی مغفرت ہوگئی، جن کی توبہ قبول ہوگئی اور جن کی کوتاہیوں سے در گزر کر دیا گیا۔ شکرِ الٰہی: اس عظیم ماہِ رمضان المبارک کے آخر میں ہم بندوں کو نعمتوں سے نوازنے والے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکرادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں روزے رکھنے اور راتوں کو قیام کرنے کی توفیق عطا کی، اس پر ان بندوں کی مدد و اعانت کی اور انھیں جہنم سے آزادی عطا کی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۱۸۵] ’’وہ (اللہ) چاہتا ہے کہ تم گنتی (روزوں کی) پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں (تکبیرات) بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔‘‘ آج اور کل: کتنی جلدی سے یہ راتیں گزر گئی ہیں؟ کل تک ہم رمضان کا استقبال کرنے کی تیاریاں کر رہے تھے اور آج اسے الوداع کرنے کو تیار ہیں۔ معلوم نہیں کہ آیندہ سال اس کا استقبال کربھی پائیں گے یا اس سے پہلے موت دبوچ لے گی؟ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم پر اور تمام مسلمانوں پر اس ماہ کو طویل مدت تک باربار لوٹائے۔
Flag Counter