Maktaba Wahhabi

469 - 612
ہرگز مطلوب نہیں، بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کے سوا ایک دوسری چیز طلب فرمائی ہے، جو خشیت و تقویٰ ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۱۸۳] ’’اے ایمان والو! تم پر بھی اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی و پرہیزگار بن جاؤ ۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ﴾ [الحج: ۳۷] ’’اللہ کو تمھاری قربانیوں کے گوشت یا خون نہیں پہنچتے، بلکہ اسے تو تمھارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ شش عیدی روزے: ماہِ رمضان کے بعد اعمالِ صالحہ میں سے ماہِ شوال کے چھ روزے (شش عیدی روزے) بھی ہیں جن کے بارے میں سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: (( مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہٗ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِیَامِ الدَّھْرِ )) [1] ’’جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے اور پھر ماہِ شوال میں بھی چھ روزے رکھ لیے، وہ ایسے ہی ہے جیسے وہ ہمیشہ (سارے سال) کا روزے دار ہے۔‘‘ علاماتِ قبول: ماہِ رمضان نے ہمارے دلوں میں خیرِ کثیر اور بھلائی کا بیج بو دیا ہے، دلوں کو صیقل و روشن کردیا ہے، ضمیر بیدار کر دیے ہیں اور طہارت و تزکیۂ نفوس کا باعث بنا ہے، جس نے ماہِ رمضان سے صحیح معنوں میں استفادہ کیا، اس کی حالت رمضان سے پہلے کی حالت سے بہتر ہوجاتی ہے۔ اعمالِ صالحہ اور نیکیوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ بندہ بعد میں بھی نیکیوں پر استمرار کرے، جبکہ عمل کے باطل اور
Flag Counter