Maktaba Wahhabi

480 - 612
احتمالات پر مشتمل عبارات کو صرف اچھے احتمال پر محمول کیا۔ یہ منہج صحیح و سالم سینوں کے لیے بہترین غذاء اور خواہشاتِ نفس کی پیروی سے آزادی کا باعث ہے۔ اسی میں سخاے نفس اور امت کی خیر خواہی بھی پنہاں ہے۔ ہمارا موجودہ طرزِ عمل: کہاں یہ منہجِ سلف اور کہاں ہمارا موجودہ طرزِ عمل؟ سلف صالحینِ امت کا طریقہ الفاظ کی من مانی تاویل و تشریح کرنا نہیں تھا اور نہ ان کے اصل معانی سے ہٹ کر انھیں دوسرے معانی کا لبادہ پہنانا تھا۔ وہ دوسروں کی لرزشوں پر خوشیاں نہیں منایا کرتے تھے اور نہ مسلمانوں کے ساتھ بدظنی کا سلوک کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ امام قلاعی رحمہ اللہ پر رحم فرمائے، وہ کہتے ہیں: ’’بعض دفعہ ایک لفظ وحشت میں مبتلا کر دیتا ہے جبکہ درحقیقت وہ محبت سے لبریز ہوتا ہے، کسی چیز سے نفرت کی جاتی ہے، جبکہ اسے اپنائے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔‘‘[1] عربوں میں مشہور کہاوتیں ہیں کہ اگر کوئی اہم کام ہو تو سامنے والے کو کہتے ہیں: ’’لَا أَبًا لَکَ‘‘ (تیرا باپ نہ ہو) اگر کوئی کام ہوجائے تو کہیں گے: ’’وَیْلَ أُمَّہُ‘‘ (اس کی ماں کی ہلاکت) عربوں کی ایک دعا یہ ہے: ’’تَرِبَتْ یَمِیْنُکَ‘‘ (تیرا دایاں ہاتھ خاک آلودہ ہو) اہلِ عقل و دانش کو چاہیے کہ وہ کسی قول کے معاملے میں کہنے والے کو بھی دیکھیں، اگر وہ دوست ہے تو اس کی بات کو وفا پر ہی محمول کیا جائے، اگرچہ ترش الفاظ پر مشتمل ہی کیوں نہ ہو اور اگر وہ دشمن ہے تو اس کی وہ بات غلط ہی ہے، چاہے وہ کتنے اچھے طریقے سے کہے۔ یہ بھی بدظنی ہی کی ایک شکل ہے کہ دوسروں کے اقوال و اعمال کو صرف برے پہلو پر ہی محمول کیاجائے، ان کی برائی کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے، ہمیشہ انھیں شک و الزام کی نگاہ سے دیکھا جائے، ان کے کسی قول و فعل کے کسی سبب یا ان کے لیے عذر و معذرت تلاش نہ کی جائے، ان کے ہر قول و فعل کو جو خیر و شر دونوں وجوہ کا احتمال رکھنے والے ہوں، انھیں صرف شر ہی پر محمول کیاجائے۔ سبحان اللہ! یہ لوگ دوسروں کی نیتوں اور دلی مقاصد کے بارے میں ایسے فیصلے صادر کرتے
Flag Counter