Maktaba Wahhabi

483 - 612
’’اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دیں، بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وہ (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔‘‘ برادرانِ اسلام! جب یہ بات طے ہو گئی ہے کہ بدظنی ایک ہلاکت خیز آفت و بلا ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس کا علاج تلاش کیا جائے، تاکہ یہ مرض کہیں بڑھ نہ جائے اور ہماری نسل کو تباہ کرکے نہ رکھ دے۔ بدظنی کا علاج: 1۔اس بدظنی کا علاج ایک تو یہ ہے کہ لوگوں کے بارے میں حسنِ ظن رکھا جائے اور سوے ظنی سے اجتناب کیا جائے، کسی کے بارے میں فیصلہ کرنے یا کسی پر الزام و اتہام لگانے سے پہلے سو بار سوچ لیں، کسی کے بارے میں حسنِ ظن کرنے کی غلطی کر جانا، اس کے بارے میں جلدبازی سے بدظنی کرنے کی غلطی کرنے سے اچھا ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: ’’ولا تظنن بکلمۃ خرجت من مسلم شرا و أنت تجد لھا في الخیر محملا‘‘[1] ’’اپنے کسی مسلمان بھائی کے منہ سے نکلے ہوئے کسی کلمے کو جب تک کسی اچھے پہلو پر محمول کرنا ممکن ہو، اس کے خلاف تب تک بدظنی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ 2۔بدظنی کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ لوگوں کی خطاؤں پر ان کے لیے عذر تلاش کیے جائیں نہ کہ ان کی عیب چینی اور کوتاہیاں تلاش کی جائیں۔ کسی چیز یا شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے یا فیصلہ دینے سے پہلے اسلامی آداب کا مکمل خیال رکھا جائے کہ فیصلہ صرف ظاہر کو دیکھ کر کریں، باطن کو اللہ پر چھوڑیں جو ہر ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَمَا لَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَاِِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا﴾ [النجم: ۲۸]
Flag Counter