Maktaba Wahhabi

586 - 612
بغیر حج صحیح نہیں ہوتا۔ ارکانِ حج درجِ ذیل ہیں: احرام یعنی مناسکِ حج میں داخل ہونا، عرفات میں وقوف کرنا، وقوفِ عرفات حج کا رکنِ اعظم ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( اَلْحَجُّ عَرَفَۃٌ )) [1] ’’حج تو وقوفِ عرفات ہی کا نام ہے۔‘‘ طوافِ افاضہ اور راجح قول کے مطابق صفا و مروہ کے مابین سعی کرنا۔ واجباتِ حج: حاجی کے لیے ضروری ہے کہ وہ حج کے تمام واجبات ادا کرے اور ان میں سے کوئی واجب ترک نہ کرے۔ حج کے واجبات یہ ہیں: میقات سے احرام باندھنا، غروبِ آفتاب تک میدانِ عرفات میں وقوف کرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، رمی (کنکریاں مارنا) حلق (پورا سر منڈوانا) یا تقصیر (بال چھوٹے کروانا)، منیٰ میں راتیں گزارنا، قارن و متمتع کا قربانی کرنا اور طوافِ وداع کرنا۔ اعمالِ یومِ نحر اور تحلّل: یومِ نحر (۱۰/ ذوالحج) کو کئی اعمال جمع ہوجاتے ہیں، یعنی جمرۂ عقبہ (بڑے جمرے) پر رمی کرنا، قربانی کرنا، سر منڈوانا، طوافِ افاضہ کرنا، حج تمتُّع کرنے والے حجاج کا سعی اور قِران و اِفراد والوں کا بھی سعی کرنا، جنھوں نے اس سے پہلے سعی نہ کی ہو۔ جب کوئی حاجی قربانی ذبح کر لے یا سر منڈوا لے اس پر احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی تمام اشیا حلال ہو گئیں سوائے بیوی کے (اور عورت کے لیے سوائے شوہر کے ، اسی کا نام؛ تحللِ اول ہے) جب کوئی شخص جمرۂ عقبہ کی رمی اور سر منڈوانے کے بعد بیت اللہ کا طوافِ افاضہ اور صفا و مروہ کے مابین سعی بھی کرلے تو اس پر ہر چیز حلال ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کی بیوی بھی (اور یہی ’’ تحللِ کامل‘‘ کہلاتا ہے)۔ مستحباتِ حج: حاجی کے لیے مستحب ہے کہ اعمال و افعالِ خیر کی کثرت کرے اور کثرت سے تلبیہ کہے، یہاں تک کہ جمرۂ عقبہ کی رمی شروع کردے، قرآنِ کریم کی کثرت سے تلاوت کرے اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر کثرت سے دعائیں کرے، خصوصاً یومِ عرفہ میں کثرت سے دعائیں مانگے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter