Maktaba Wahhabi

589 - 612
’’یہ گذشتہ اور آیندہ دو سالوں کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔‘‘ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ارشادِ نبوی ہے: (( مَا مِنْ أَیَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا أَحَبُّ إِلَیْہِ الْعَمَلُ فِیْھِنَّ مِنْ ھٰذِہِ الْأَیَّامِ الْعَشْرِ، فَأَکْثِرُوْا فِیْھِنَّ مِنَ التَّسْبِیْحِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالتَّحْمِیْدِ )) [1] ’’اللہ کے نزدیک کوئی عمل اتنا عظیم ترین اور محبوب ترین نہیں ہے جتنا ان دس دنوں میں کیا گیا کوئی عمل ہے، لہٰذا ان دنوں میں بکثرت سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَللّٰہُ أَکْبَرُ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہو۔‘‘ خود سیدنا ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم بازار کی طرف نکل جایا کرتے تھے اور تکبیرات کہا کرتے تھے، پھر ان کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی تکبیریں کہا کرتے تھے۔[2] اے حاجی!: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَ اتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ [البقرۃ: ۱۹۷] ’’حج کے مہینے معلوم و معروف ہیں، جس نے ان میں اپنے اوپر حج فرض کر لیا اسے چاہیے کہ کسی شہوانی فعل اور گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور نہ دورانِ حج لڑائی جھگڑا کرے اور بھلائی کا جو بھی کام تم کرو گے اللہ اسے جانتا ہے اور زادِ راہ لے کر چلو اور بہترین زادِ راہ تو تقویٰ (پرہیزگاری اور دستِ سوال دراز کرنے سے بچنا) ہی ہے۔ اے عقل والو! میرا تقویٰ اور خوف اختیار کرو۔‘‘ اسلامی آداب و اخلاقِ عالیہ کو اپناؤ اور حج کو اپنی آیندہ زندگی کے لیے توبہ و اچھائی کا آغاز بنا لو اپنے آیندہ کے اعمال کے لیے اسے تقوے کا پیش خیمہ بنا لو اور جو کوتاہیاں ہو گئیں، ان کے لیے
Flag Counter