Maktaba Wahhabi

592 - 612
سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ ان لوگوں کی دو عیدیں تھیں، جن میں وہ کھیل کود کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: (( مَا ھٰذَانِ الْیَوْمَانِ؟ )) ’’یہ دو دن کیا ہیں؟‘‘ انھوں نے بتایا کہ ہم عہدِ جاہلیت میں ان دو دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے۔ تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قَدْ أَبْدَلَکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا مِّنْھُمَا: یَوْمَ الْأَضْحٰی وَ یَوْمَ الْفِطْرِ )) [1] ’’اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان دو دنوں کے بدلے ان سے بدرجہا بہتر دو دن عطا کر دیے ہیں: عیدالاضحی اور عید الفطر۔‘‘ عید الاضحی: اللہ تعالیٰ نے اسے ۱۰/ ذو الحج کے دن مقرر فرمایا ہے، جو وقوفِ عرفات کے بعد آتا ہے۔ وہ رکنِ حج جو حج کے تمام ارکان سے بڑا (رکنِ اعظم) ہے، اس دن اللہ نے ایسے اعمال مشروع فرمائے ہیں جو بڑے ہی جلیل القدر ہیں، جن کے ذریعے بندے اپنے رب کا تقرّب حاصل کرتے ہیں اور اسی دن کو اللہ تعالیٰ نے ’’یومِ حجِ اکبر‘‘ بھی قرار دیا ہے، کیونکہ حج کے اکثر اعمال کی انجام دہی اسی دن میں ہوتی ہے۔ اللہ عزوجل نے اپنی رحمت و حکمت اور وسیع علم و قدرت کے پیشِ نظر اس دن بہت ہی جلیل القدر اعمالِ صالحہ اور حصولِ تقرّب کے لیے نیک کام مشروع فرمائے ہیں اور تمام لوگوں کو انھیں سر انجام دینے کا حکم فرمایا ہے، تاکہ اللہ کا قرب حاصل ہو، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ سَابِقُوْٓا اِِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ [الحدید: ۲۱] ’’دوڑے آؤ اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت زمین و آسمان کی وسعتوں کے برابر ہے۔ یہ ان کے لیے بنائی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ نیز ارشادِ الٰہی ہے:
Flag Counter