Maktaba Wahhabi

73 - 612
بھیجے ہیں ان پر خوف نہ کرو اور دنیا میں تم جو اہل، اولاد اور مال چھوڑ آئے ہو، ان پر غم اور فکر نہ کرو، ہم آخرت میں تمھارے دوست ہیں، ہم قبروں میں اور صور پھونکے جانے کے وقت تمھاری غم خواری کریں گے اور دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تمھاری تسلی تشفی کریں گے۔ جہاں تک کفار کا تعلق ہے تو جب ان پر موت طاری ہوتی ہے اور وہ اس کی تکلیفوں اور سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو انھیں انتہا درجے کی ذلت و رسوائی اٹھانا پڑتی ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ کُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ﴾ [الأنعام: ۹۳] ’’اور کاش! تو دیکھے جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں، نکالو اپنی جانیں، آج تمھیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس کے بدلے جو تم اﷲ پر ناحق (باتیں) کہتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔‘‘ دنیا میں واپسی کی خواہش: ان کی حسرت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ دنیا میں دوبارہ لوٹنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ حَتّٰی۔ٓ اِِذَا جَآئَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ . لَعَلِّیٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ﴾ [المومنون: ۹۹، ۱۰۰] ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو کہتا ہے: اے میرے رب! مجھے واپس بھیجو، تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں، اس میں کوئی نیک عمل کر لوں۔‘‘ مفسر قرآن امام قتادہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اﷲ کی قسم! وہ اس بات کی تمنا نہیں کرے گا کہ وہ اپنے اہل و عیال کی طرف لوٹے، نہ وہ مال کی طرف لوٹنے اور دنیا کا مال جمع کر کے اپنی خواہشات پوری کرنے کی آرزو کرے گا، بلکہ وہ یہ تمنا کرے گا کہ وہ دنیا میں لوٹ کر اﷲ تعالیٰ کی اطاعت والے
Flag Counter