Maktaba Wahhabi

34 - 608
پیش لفظ از مولانا عبد الخالق محمد صادق مدنی حفظہ اللہ الحمد للّٰه الذی رفع شأن الدعاۃ والمبلغین،وجعل الدعوۃ إلی اللّٰه من أہم وظائف الأنبیاء ومہمۃ المرسلین ، فقال عز من قائل{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ}والصلاۃ والسلام علی إمام الخطباء والمبلغین الذی رسم قواعد الخطابۃ ، وأشاد معالم الدعوۃ ،وأوضح مناہج المبلغین،وعلی آلہ الأطہار وأصحابہ الغرر المیامین،وعلی من سار علی دربہم من الدعاۃ الصادقین،صلاۃ وسلاما دائمین متلازمین إلی یوم الدین ۔وبعد ۔ فن خطابت کی اہمیت خطابت اپنے مافی الضمیرکے اظہار،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کاقائل بنانے کے لیے کامیاب اور مؤثر ترین فن ہے۔ایک قادر الکلام خطیب اور شاندار مقرر مختصر وقت میں ہزاروں،لاکھوں افراد تک اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے اور اپنے عقائد ونظریات ان تک منتقل کر سکتا ہے۔شعلہ نوا خطباء حالات کا دھارا بدل دیتے ، ہواؤں کے رخ تبدیل کردیتے ،معاشروں میں انقلاب بپا کردیتے اور میدان وغا میں کنجشک فرو مایہ کو شاہین سے لڑا دیتے،خون گرما دیتے اورروحوں کو تڑپا دیتے ہیں۔ نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا علامہ جاحظ کے نزدیک خطابت بیان وبلاغت ہی کی ایک صورت ہے اور ارسطو نے اسے اثر انگیزی کا فن قرار دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں خطابت کو مہتم بالشان اور قابل فخر فن کی حیثیت حاصل رہی اور اقوام وملل اور قبائل کے امراء وزعماء کے لیے فصیح اللسان خطیب ہونا لازمی امر تھا۔ بلکہ نازیوں کی شکست کے بنیادی اسباب میں سے ایک اہم سبب اسے قرار دیا جاتا ہے کہ ان کا قائد فن خطابت سے نابلد تھا ۔اور اگر ہم قبل از اسلام زمانہ جاہلیت کی تاریخ پر سر سری نگاہ ڈالیں تو اس دور میں بھی ہمیں کئی معروفِ زمانہ فصیح اللسان اور جادو بیان خطباء اس فن کی بلندیوں کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان میں قیس بن ساعدہ،سحبان بن وائل،عمرو بن معدیکرب،عمرو بن کلثوم،حارث بن عباد،درید بن زید،مرثد الخیر،قیس بن زہیر،ذو الاصبع العدوانی اور اکثم بن صیفی
Flag Counter