Maktaba Wahhabi

101 - 668
سراج منیر کا یہی مطلب ہے۔ اس کی جہاں افروز تعلیم سے کوئی مذہب باہر نہیں رہ سکتا۔ یہ اس کی اعلیٰ پائے کی صداقت و فضیلت ہے۔ سراج منیر کا دوسرا مطلب: دوسرا مطلب یہ ہے کہ انبیا کے وجود میں معنوی نور کے علاوہ ایک مادی اور حقیقی نور بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ ان کے جسم سے نکل کر نمودار اور شعلہ زن ہوتا ہے کہ حاضرین اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سراج منیر ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ نور بہ نسبت دوسرے انبیا علیہم السلام کے بہت زیادہ تھا۔ ایک نور تو انبیا علیہم السلام کی پیدایش کے وقت ان کے ساتھ ہی پیدا ہو کر ظاہر ہوتا ہے۔ تفسیر ابنِ کثیر سورۃ الصف زیر آیت ﴿اِسْمُہُ أَحْمَدْ﴾ بحوالہ ابن اسحاق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ آپ ہمیں اپنی ذات سے خبر دیجیے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کی علتِ غائی کیا ہے؟ فرمایا: میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں ، یعنی انھوں نے میری پیدایش کے لیے دعا کی اور میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں ، یعنی انھوں نے میری آمدکی خوشخبری دی اور میری والدہ مجھ سے حاملہ ہوئیں تو ان کے وجود میں سے ایک نور نکلتا ہوا ان کو دکھائی دیا، اس نور سے بصریٰ شہر کے، جو شام کی زمین میں واقع ہے، ان کو محل نظر آنے لگے۔ اس حدیث کے اسناد جید ہیں اور اس کے شواہد بحوالہ مسند امام احمد اسی جگہ مذکور ہیں ۔[1] پہلی حدیث عرباض بن ساریہ سے مروی ہے، جس کا مضمون اسی حدیث کے مطابق ہے۔ اس روایت میں صرف رؤیا کا لفظ واقع ہوا ہے جس کے معنی عموماً خواب کے ہیں ۔ پھر اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ نبیوں کی ماؤں کو ان کی پیدایش کے وقت اسی طرح نور دکھائی دیتا ہے۔ دوسری حدیث ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس کا مضمون بعینہٖ اسی حدیث کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ جب دوسرے نبیوں کی ماؤں کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کی طرح نور دکھائی دیا تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا نہ رہا، لیکن بایں ہمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے لیے جو نور نمایاں اور جلوہ گر ہوا، وہ بہ نسبت دوسرے انبیا علیہم السلام کے نور سے بہت زیادہ تھا کہ مکہ سے ان کو بصریٰ شہر کے محل نظر آنے لگے، جو
Flag Counter