Maktaba Wahhabi

108 - 668
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سولھویں آیت: ﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ [التوبۃ : ۱۲۸] خدا تعالیٰ لوگوں پر اپنا احسان جتلاتا ہوا فرماتا ہے: ’’اے لوگو! تمھارے پاس ایسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں ، جو تمھاری جانوں میں سے ہیں (یعنی آدم علیہ السلام کی اولاد سے) جو تمھیں ضرر یا تکلیف آئے، ان پر گراں اور شاق گزرتی ہے، یعنی تمھارے بڑے ہمدرد ہیں اور تمہارے نفع اور آسانی کے خواہش مند ہیں ، مومنوں کے ساتھ شفقت کرنے والے مہربان ہیں ۔‘‘ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’رَؤُفُ‘‘ اور ’’رَحِیْمٌ‘‘ کے اسما سے یاد کیا گیا ہے۔ ’’رَؤُفُ‘‘ رأفت سے مبالغے کا صیغہ ہے اور ’’رَحِیْمٌ‘‘ رحمت سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ جو صیغے مبالغے کے وزن پر آتے ہیں ، وہ کثرت کے معنی ظاہر کیاکرتے ہیں اور صفت مشبہ کا صیغہ اپنے موصوف سے ہمیشہ صفت کو قائم رکھنے کے لیے آتا ہے اور ’’بالمؤمنین‘‘ جار مجرور، جو جملہ اسمیہ سے ملتا ہے، مقدم ہے جو مفیدِ حصر ہے، جس کے معنی خصوصیت کے ہیں ۔ پس ترجمہ یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاص مومنوں کے ساتھ ہی پیار کرنے والے اور ہمیشہ بہت رحم کرنے والے ہیں ۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و پیار اور اسلامی طریقہ مومنوں کے ساتھ ہی خاص تھا، جس میں کافروں کا کوئی حصہ نہیں ۔ ورنہ طبعًا شفقت و پیار تو کافروں سے بھی تھا، حتی کہ ان کا کفر دیکھ کر ان کی ہمدردی کی خاطر اتنا غم کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان پر شاق گزرتا اور خدا تعالیٰ کو تسلی دینی پڑتی۔ فرمایا: ﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِھِمْ﴾ [الکہف : ۶] ﴿لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤمِنِیْنَ﴾ [الشعراء :۳] ’’یعنی کافروں کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان کو ہلاک نہ کر دیں ۔‘‘ ہمیں اس امر کا اعتراف ہے کہ تمام انبیا علیہم السلام اپنی امتوں کے ساتھ پیار کرتے تھے، لیکن اس
Flag Counter