Maktaba Wahhabi

110 - 668
﴿ذُقْ اِِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ﴾ [الدخان : ۴۹] ’’یہ عذاب چکھ بے شک تو دنیا میں بہت غالب اور عزت دار بنا ہوا تھا۔‘‘ سو خدا کے عزیز و کریم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز و کریم اور کافر کے عزیز و کریم ہونے میں بڑا فرق ہے۔ اب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور رحمت مومنوں کے ساتھ خصوصیت کے طور پر کس طرح وقوع پذیر ہوتی تھی؟ حدیث میں آتا ہے: ’’جب کوئی مقروض فوت ہو جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت المال سے اس کا قرض ادا فرماتے اور اس کا ترکہ اس کے وارثوں کو دیتے اور خود نہ لیتے تھے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر زیرِ آیت ﴿النبی أولیٰ بالمؤمنین﴾ سورۃ الأحزاب، و بخاري کتاب التفسیر) [1] مقروض کو، جو بحالت قرض، خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ پڑھنے سے محروم رہتا تھا، اپنی گرہ سے اس کا قرض ادا کر کے اس کے سر سے حقوق العباد کا بوجھ اتارنا، رحمت بسیار اور شفقت کی بہترین دلیل اور اعلیٰ نظیر ہے۔ بے شک رافت اور رحمت کے نام سے بہ ہیئت ترکیبی پکارا جانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خاص فضیلت ہونی چاہیے تھی۔ احادیث میں ایسے اور نظائر بھی ملتے ہیں ۔ رافت اور رحمت کی فضیلت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق جمیلہ کی تمہید ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں اخلاقِ عظیمہ و شمائلِ حسنہ انتہائی درجے تک پائے جاتے تھے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں شفقت اور مہربانی بہت زائد تھی۔ سیدالکونین کے اخلاقِ جمیلہ کے اوصاف سترھویں آیت: ﴿اِِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ [القلم : ۴] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب الٰہی ہوتا ہے کہ ’’تحقیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے خلق پر قائم و ثابت ہیں ۔ ‘‘ خلق کے معنی طبعی عادت، جس میں تہذیب، حسنِ ادب، مخالفوں کی تکلیف برداشت کرتے ہوئے ان کو معاف کرنا، خدا کی خلقت کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی اور حیا وغیرہ ہے۔ ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ تمام انبیاے کرام علیہم السلام میں بے شک اخلاقِ حمیدہ اور تہذیب وغیرہ بدرجہ اتم موجود تھی، لیکن جس قدر یہ اخلاقِ عالیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں طبعی طور پر پائے جاتے تھے، وہ کثرت اور
Flag Counter