Maktaba Wahhabi

113 - 668
کتبِ احادیث میں اس مضمون کی بکثرت احادیث مذکور ہیں (دیکھو: مشکاۃ کا باب مذکور اور شمائلِ ترمذی) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خلقِ عظیم کی تلوارسے سیکڑوں بلکہ ہزاروں کے دلوں کو ایسا فتح کیا کہ ہزارہا آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ہو گئے اور بعض نے جہاد اور موت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت بھی کی، جیسا کہ بیعتِ رضوان میں ہوا۔ بیعتِ رضوان کا ذکر اٹھارویں آیت: ﴿اِِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ﴾ [الفتح : ۱۰] اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف ظاہر کرنے کے لیے یوں فرماتا ہے: ’’اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں سوا اس کے نہیں وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔‘‘ مبایعت کا مادہ بیع ہے۔ لغت میں مطلقًا اس کے معنی تبادلہ کے ہیں اور شرعًا خرید و فروخت کے ہیں ۔ غرض مبایعت میں کچھ لینا دینا ضرور ہے۔ بیعت شرعی اصطلاح میں اس عہد و پیمان کو کہتے ہیں جو اطاعتِ امام کے متعلق انسان اپنے نفس پر عائد کر لیتا ہے اور وفاے عہد کا التزام بھی اس لفظ کے اندر شامل ہے۔ (رحمۃللعالمین، خصوصیت نمبر ۳۳، صفحہ ۱۰۰، جلد ۳) اس آیت کا ذکر خصائص النبی میں اس لیے کیا گیا ہے کہ اس سے خاص فضل و شرف محمدی کا ثبوت ملتا ہے۔ پہلے یہ کہ قرآن مجید میں کسی نبی کی بیعت کا اوّلًا تو ذکر ہی نہیں اور نبی کی بیعت کو خدا نے اپنی بیعت قرار نہیں دیا، بخلاف اس بیعت کے، چونکہ یہ بیعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری و اظہارِ جاہ کے لیے خدا کی مرضی سے ہوئی، لہٰذا ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ﴾ کی طرح خدا تعالیٰ اسے اپنی طرف نسبت کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف و احترام کا اظہار کرتا ہے۔ بیعت کرنے والوں کو جو رتبہ حاصل ہوا، اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ﴿یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ﴾ سے کرتا ہے۔ تفسیر ابنِ کثیر و کبیر وغیرہ میں ’’یَدٌ‘‘ کے معنی نعمت و احسان کے لکھے ہیں ۔ پس معنی یہ ہوئے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت جہاد پر کی ہے، یہ تمہارا احسان ہے اور اس کے بدلے میں جو تم پر
Flag Counter