Maktaba Wahhabi

118 - 668
اظہار کی غرض سے اس کے ایسے صفاتِ کمالیہ کو اسم کے قائم مقام رکھا جاتا ہے، جن سے مخاطب کے ذہن میں اس کے رتبے کا اظہار ہو اور اس وقت موصوف کا نام لینے کی ضرورت نہیں رہتی۔ سوال: احادیثِ صحیحہ تمھارے مدعا کی مخالفت کرتی ہیں ، کیونکہ اکثر احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے پکارا گیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِنَّ رَبِّيْ قَالَ: یَا مُحَمَّدُ اِنِّيْ إِذَا قَضَیْتُ قَضَاء اً فَإِنَّہٗ لَا یُرَدُّ)) (مسلم، مشکاۃ باب فضائل الأنبیاء) [1] ’’ارشادِ الٰہی ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !بے شک میں جب فیصلہ کروں تو وہ رد نہیں کیا جا سکتا، یعنی تقدیر نہیں ٹل سکتی۔‘‘ اسی طرح شفاعت کی حدیثوں میں بھی مذکور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے امت کی شفاعت کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشادِ خداوندی ہوگا: (( یَا مُحَمَّدُ اِرْفَعْ رَأْسَکَ)) [2] علاوہ ازیں اور بھی بہت سی احادیث ہیں ، جن میں اسمِ گرامی کی تصریح ہے۔ جمیع اہلِ اسلام کا عقیدہ ہے کہ حدیث صحیح مرفوع قولی ہو یا فعلی یا تقریری، وہ خدا کی وحی ہے۔ پس جب حدیث وحیِ الٰہی ہونے کے بموجب قرآن کے مساوی ٹھہری تو اس میں دیگرانبیا علیہم السلام کی طرح اسم مبارک سے خطاب ہوتا ہے۔ پس تمہارا صفاتی خطاب کے خاصا ہونے کا جو مدعا تھا، اس کی نفی ہو گئی اور خاصے کی نفی اس فضیلت کی بھی نفی کرتی ہے۔ جس صورت میں یہ خاصا نہ رہا تو جو فضیلت اس سے ثابت ہوئی تھی وہ بھی چلی گئی۔ جواب: بے شک ہمارا ایمان ہے کہ حدیث صحیح مرفوع وحیِ الٰہی ہونے میں قرآن کے برابر ہے، لیکن قرآن بو جہ چند خصوصیات کے حدیث پر فوقیت رکھتا ہے، جیساکہ سیدالکونین صلی اللہ علیہ وسلم نبی اور رسول ہونے کے علاوہ خصوصیاتِ قرآنیہ و حدیثیہ کی بنا پر انبیاے عظام علیہم السلام پر فضیلت و برتری رکھتے ہیں ۔
Flag Counter