Maktaba Wahhabi

125 - 668
زیارت ہو جاتی ہے، اس لیے کہ وہ مسجد نبوی کے ساتھ ایسا ملا ہوا ہے گویا کہ اس کا ایک جز ہے۔ (اللہ مصنف کو بلکہ ہر مسلمان کو حج بیت اللہ اور مسجد نبوی و روضۂ اطہر اور بیت المقدس کی زیارت نصیب کرے۔ آمین) اللہ تعالیٰ نے ہم پر بہت بڑا فضل اور احسان کیا ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے تمام انبیا علیہم السلام و ملائکہ کا سید بنایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر بے حد احسان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے مصائب برداشت کر کے ہمیں صراطِ مستقیم پر چلایا اور ہماری خیرخواہی و ہمدردی والدین سے بھی زیادہ کرتے رہے۔ ہم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان و شکریہ ادا کرنا واجب ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ و سلام پہنچانے سے ادا ہو سکتا ہے۔ درود شریف اور اس کے فضائل تیئسویں آیت: خدا فرماتا ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ [الأحزاب : ۵۶] ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی نبی پر درود اور سلام بھیجا کرو۔‘‘ صلاۃ کے معنی لغت میں دعا اور رحمت و برکت، تعظیم، ثناے حسن، یعنی اچھی صفت اور پاکیزگی کے ہیں ۔[1] (تفسیر ابن کثیر اور جامع البیان تحت آیت مذکورہ، حاشیہ مشکاۃ، باب صلاۃ النبي، تحفۃ الأحوذي، کتاب التفسیر، سورۂ احزاب، جلد ۴) آیت مذکورہ میں صلاۃ کی نسبت اللہ، فرشتوں اور ایمانداروں کی طرف ہے۔ فرشتوں اور ایمانداروں کی نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے دعا کے معنوں میں استعمال کرنا صحیح ہے، بخلاف اللہ کے کہ اس کی طرف ان معنوں میں اس کااستعمال و منسوب محال ہے، کیونکہ اس کی دو شقیں ہیں : 1۔دعا وہ شخص کر سکتا ہے، جس سے پہلے کوئی حاکم قاہر و جبار موجود ہو اور اس سے ڈر کر اس کی
Flag Counter