Maktaba Wahhabi

176 - 668
بیٹے! ہم سے اچھے! ہم سے اچھے کے بیٹے! پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے قول کو لازم پکڑو۔ یعنی جو تمہیں تعلیم دی گئی ہے وہی کہا کرو، تمہیں شیطان بری خواہش میں نہ ڈالے۔ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ کا بیٹا ہوں ، جو مرتبہ خدا نے مجھے دے رکھا ہے، تم مجھے اس سے بڑھا دو تو میں اس بات کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر تحت آیت: لَا تَغْلُوْا) [1] اس حدیث کو امام ابن کثیر نے اپنے رسالے میں ، جو تفسیر جامع البیان کے ساتھ متصل ہے، بحوالہ امام نسائی رحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن شخیر سے جید اسناد سے روایت کیا ہے۔ اعتراض: جس صورت میں آپ لوگ فخرِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت آدم علیہ السلام کی ساری اولاد کا سردار ثابت کر چکے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو، جو حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد سے تھا، سردار کہنے سے کیوں روکا؟ جواب: سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو آدم علیہ السلام کی اولاد کا سردار کہنے سے منع نہیں کیا، بلکہ اس صورت کو روکا ہے جس میں غلو پایا جاتا ہے اور جسے شیطانی خواہش کہہ کر عوام کو نفرت دلائی۔ وہ یہ ہے کہ کہنے والے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ عبداللہ کو، جو یقینا نبی نہ تھے، اپنا سردار اور اپنے آپ سے بہتر کہہ کر نبی اور غیر نبی میں مساوات پیدا کر دی، جو صریح کفر ہے۔ اسی لیے اسے تنبیہ کر کے ایسے کفرسے روکا گیا۔ فضائل کے باب میں جھوٹی روایات جمع کرنے والوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شان حد سے بڑھانے والوں کے فعل نے گویا اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ خدا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل جو قرآن میں ذکر کیے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا سے وحی پا کر جن فضائل کو حدیث میں بیان فرمایا ہے، یہ فضائل کافی نہیں ، ان میں نقص ہے اور ہم ان کو اپنی طرف سے پورا کرتے ہیں ۔ گویا ان کے زعمِ باطل میں یہ فضائل خدا کو بھی یاد نہ تھے اور نہ اس نے اپنے رسول کو یاد کرائے۔ ایسے باطل اور کفریہ عقیدے سے خدا اور اس کے رسول کی توہین لازم آتی ہے۔ فافھم
Flag Counter