Maktaba Wahhabi

182 - 668
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم مقدمہ اَللّٰھُمَّ! أَیِّدْنِيْ بِرُوْحِ الْقُدُسِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ، وَعَلٰی آلِہٖ وَأَصْحَابِہٖ أَجْمَعِیْنَ، أَمَّا بَعْدُ! بندہ کمترین احمد دین معزز ناظرین کی خدمت میں گزارش کرتا ہے کہ مذہبی مناظرات اور تحقیقات میں حصہ لینا اربابِ فہم اور عقلا کے نزدیک پسندیدہ افعال میں سے ہے، بشرطیکہ مخالف کے مذہب کی اصل تصویر کو نظر انداز کرتے ہوئے نا شائستہ اور دل آزار الفاظ اور غیر مہذب تحریر، کذب بیانی، خیانت کاری اور بہتان طرازی سے آلودہ کر کے عوام میں تنفر نہ پیدا کیا جائے، جیسا کہ حاسد اور متعصب لوگوں کا طریقِ کار ہے۔ مگر عیسائیوں اور آریوں میں بعض مصنف ایسے ہیں جو اسلام اور اپنے مذہب کا مقابلہ کرتے ہیں تو اسلام کی حقانیت، معقولیت اور پاکیزہ تعلیم کو اپنے مذہب سے بالا تر اور اعلیٰ ترین پا کر ان کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی بنا پر کوئی منصف مزاج آدمی ہمارے مذہب کو ترک کر کے مشرف بہ اسلام نہ ہو جائے۔ ایسے لوگوں میں پادری ٹھاکر داس جی۔ ایل مصنف رسالہ’’ سیرۃ المسیح علیہ السلام و محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘اور پنڈت بھکشو مصنف ’’کلام الرحمن‘‘ قابل ذکر ہیں ۔ پادری ٹھاکر داس جی۔ ایل کا رسالہ ’’سیرۃ المسیح علیہ السلام و محمد صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘۱۹۲۹ء میں عاجز کی نظر سے گزرا تھا۔ مصنف مذکور نے حضرت مسیح علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مقابلہ کرتے ہوئے حضرت سید الانبیائ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ایسے ناشائستہ الفاظ اور غیر مہذب انداز اختیار کیا ہے کہ دیکھتے ہی مسلمان کا دل زخمی ہو جاتا ہے۔ ا س کے دل آزار الفاظ سے جذبات کو محض ٹھیس ہی نہیں لگتی، بلکہ جگر کباب کی طرح سوختہ ہو جاتا ہے۔ ہمیں غیرتِ اسلامی اور چند احباب کی ترغیب نے اس کا جواب لکھ کر عیسائیوں کی مشنریوں میں ارسال کرنے پر اس لیے آمادہ کیا کہ شاید کوئی پادری صاحب اس کا جواب شائع کر کے ہم تک پہنچا دے،
Flag Counter