Maktaba Wahhabi

216 - 668
اس کی عورت بھی ایک مضبوط سا آدمی رکھ لے۔ (سوانح عمری کلاں ، صفحہ: ۳۵۵) پنڈت جی بتائیے! سوامی جی کا یہ قول مذہبی حکم ہے یا غصہ کا اظہار؟ کیا کوئی مذہبی پیشوا قوم کا سچا ہادی غصے کی حالت میں دھرم کے خلاف ایسا اخلاق سوز حکم دے سکتا ہے؟ تعجب ہے کہ سوامی جی کس قدر غصے کے مغلوب ہیں ؟ ہم حیران ہیں کہ ایک پاک دامن عورت کو اس کے خاوند کی بے حیائی سے مضبوط سا آدمی رکھنے کا حکم دیتے ہیں ۔ ہمیں دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ پنڈت جی یہ حیا سوز اور شرم ناک تعلیم ہے یا جس کو آپ نے سمجھا؟ پنڈت جی کے عصمتِ (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جس قدر اعتراض تھے ان کا جواب تو ضمناً ختم ہو چکا۔ اب سیرۃ المسیح کے مصنف عیسائی کے اعتراضات کی طرف روئے سخن کیا جاتا ہے۔ سیرت: سورۃ الفتح کی پہلی دو آیتیں یوں ہیں : ’’ہم نے فیصلہ کر دیا تیرے لیے صریح فیصلہ، تا کہ معاف کرے تجھ کو اللہ تیرے گناہوں سے۔‘‘ یہاں پھر محمد صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی گمراہی اور گناہ گاری کی نسبت صاف مذکور ہے۔ (صفحہ: ۱۱) بصیرت: پادری صاحب نے ترجمہ کرنے میں خیانت سے کام لیا ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے آپ کو فتح دی فتح ظاہر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بخشے آپ کو جو آگے ہوئے آپ سے گناہ اور جو پیچھے ہوئے۔‘‘ اس آیت میں فتح ظاہر کو گناہ کے بخشنے کی علت قرار دیا گیا ہے، بحالیکہ دشمن پر غلبہ اور فتح گناہ بخشنے کی علت نہیں ہو سکتی، کیوں کہ کبھی بد آدمی کو نیک پر فتح ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمان پر کافر کو ظاہری غلبہ ہو جاتاہے اور اس کے بر عکس بھی۔ اگر فتح سے گناہ بخشے جاتے تو کافر کے بھی بغیر اسلام کے گناہ معاف ہو جاتے، حالانکہ یہ محال ہے۔ پس ہر چند آیت کے معنی قابلِ غور ہیں ۔ یاد رہے کہ درحقیقت آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گناہ گار نہیں کہا گیا، بلکہ مخالفین جو آپ کی عیب جوئی کیا کرتے تھے اور الزام دیتے تھے ان کے
Flag Counter