Maktaba Wahhabi

221 - 668
اسلامی احکام میں تغیر اور اس کی حکمت سیرت: محمد صلی اللہ علیہ وسلم گفتار میں ثابت قدم نہیں ، کبھی کچھ اور کبھی کچھ اور یہاں کچھ اور وہاں کچھ کہ وہ انسان گناہ کی شریعت کے تحت میں ہے۔ (صفحہ ۱۶، ۱۷) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حالتوں اور موقعوں سے بنتی رہی۔ اس کا شروع اور انجام یکساں نہ ہوا، تغیر پذیر ہی رہی۔ اس متغیر تعلیم کا موجب کوتاہ اندیشی، کمزوری اور بے اعتباری ہے۔ (صفحہ ۲۵، ۲۶) بصیرت: تعلیمِ اسلام میں یہ ایک انوکھی خوبی ہے کہ اس کے احکام انسان کی ہر حالت کو ملحوظ رکھ کر اتارے گئے، یعنی انسان کی ہر حالت میں اس کے مطابق اس میں حکم اور مسئلہ پایا جاتاہے، جیسے فقیر اور دولت مند، مقیم اور مسافر، بادشاہ اور گداگر وغیرہ۔ اسلام ان سب حالتوں میں انسان کی راہنمائی کرتا ہے۔ مثال کے طور پر دولت مند پر عبادت میں جو اعمال لازم ہیں ، جیسے زکات، حج، صدقہ و خیرات وغیرہ، فقیر پر سے ساقط ہیں ، اس لیے کہ یہ اس کی طاقت سے باہر ہیں ۔ الغرض ہر حالت میں زندگی بسر کرنے کا طریقہ اسلام میں موجود ہے۔ یہی اس کے عالم گیر ہونے کی اعلی ترین وجہ ہے۔ دیگر مذاہب میں یہ خوبی معدوم ہے۔ اس کے اکثر احکام واقعات کی بنا پر نازل کیے گئے ہیں ، یعنی جب کوئی واقعہ وقوع میں آ جاتا تو خدا تعالیٰ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے جواز یا عدمِ جواز کے متعلق خبر کر دیتا۔ اس مسئلے پر عمل ہوتا ہوا دیکھ کر عام لوگ مسائل کو آسانی سے یاد کر لیتے، اسلامی تعلیم کی مثال اس ماہر طبیب کی سی ہے، جو مختلف قسم کے مریضوں کا ان کی حالت کے مطابق علاج کرتا ہے۔ اگر ایسے مریضوں کو ایک ہی نسخہ استعمال کرائے تو وہ فوراً ہلاک ہو جائیں ، جیسا کہ عیسائی مذہب کی حالت ہے۔
Flag Counter