Maktaba Wahhabi

231 - 668
مسلمانوں کی طرح آرام سے زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔ اسلامی حکومت پر ان کی حفاظت مسلمانوں کی طرح فرض ہے۔ ان سے جزیہ لے کر ان کی حفاظت پر ہی خرچ کیا جاتا ہے۔ ایسے کفار کو ذمی اس لیے کہا جاتا ہے کہ حکومت ان کی ہر قسم کی حفاظت کی ذمے دار ہے۔ اگر اسلامی تعلیم میں زبردستی کا حکم ہوتا تو اسلامی حکومت میں کفار کو بحفاظت نہ رکھا جاتا، بلکہ ان کو زبردستی سے مسلمان بنایا جاتا اور انکار کی صورت میں وہ قتل کیے جاتے، لیکن اسلام میں ایسا حکم ہر گز نہیں ہے۔ چوتھا مسئلہ: اسلام میں بوقتِ مقابلہ دشمنوں کے بوڑھے مردوں اور نا بالغ بچوں اور عورتوں کو قتل کرنا منع ہے، کیونکہ وہ مقابلے میں نہیں آتے۔ اگر اسلام بزور شمشیر اور زبردستی پھیلایا جاتا تو وہ بھی اس وقت فوراً ہلاک کیے جاتے۔ معلوم نہیں کہ چھوٹے لڑکے بالغ ہو کر اسلام کو اختیار کریں یا اس سے انکار؟ اسی طرح بوڑھے مردوں اور عورتوں پر زبردستی کرنے کا حکم نہیں ہے۔ فافہم ایک بات اس کے علاوہ اور قابلِ غور ہے کہ کفار کے مقابلے میں اسلام کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ تو اس کا جواب ہے کہ نقصان ہوا۔ کفار نے جب دیکھا کہ اسلام بذریعہ تبلیغ ہر روز ترقی کر رہا ہے تو انھوں نے مسلمانوں سے لڑنا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے تبلیغِ اسلام میں رکاوٹ پیدا ہو گئی۔ دوسرا نقصان یہ کہ مدینہ منورہ میں دو قسم کے مسلمان تھے: ایک ایسے خالص مسلمان تھے کہ اسلام اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر جان اور مال قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے اور دوسری قسم کے لوگ بظاہر مسلمان تھے، لیکن باطن میں کافر اور اسلام کے سخت مخالف۔ ان کو منافق کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ در پردہ اسلام کے خلاف تجسس کرتے ہوئے، شرارت بازی سے اسلام کے دشمن سے میل جول رکھتے اور اس کو مٹانے کی ناپاک کوشش کرنا ان کا ناپاک شیوہ تھا۔ یہ لوگ لڑائی کے وقت جھوٹے عذر کرتے ہوئے پیچھے رہ جاتے۔ اسلامی جہاد میں یہ بھی ایک حکمت ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں کا امتحان لیتا ہوا پاک اور پلید، یعنی مومن اور کافر میں تمیز کر دیتا ہے۔ جو بلا عذر شرعی جنگ میں شریک نہ ہو، اس کا کفر اور نفاق مسلمانوں پر ظاہر ہو جاتا۔ دیکھو سورت آل عمران اور سورۃ التوبہ۔
Flag Counter