Maktaba Wahhabi

261 - 668
بھی اِن کی خدمت کرتا ہے، لیکن درحقیقت یہ خدمت نہیں ، بلکہ خدمت کا حق ادا کرتا ہے۔ اِسی طرح انسان کی دو صنفیں مرد و عورت میں بھی یہ نسبت ہے کہ مرد عورت کو استعمال کرنے والا ہے اور عورت اُس کی مستعملہ اِس کے کام آنے والی ہے۔ پس مثل دوسری چیزوں کے مرد جس قدر چاہے عورتوں کو اپنے کام میں لا سکتا ہے، لیکن اخلاقی و مذہبی تعلیم میں ان کو زیادہ سے زیادہ چار پر مخصوص کر دیا، جیسا کہ قریب ہی گزرا۔ پس عورت کے مرد کی مستعملہ ہونے کے بارے میں ہم تین قسم کے دلائل پیش کریں گے: فطری، عُرفی اور مذہبی۔ دلائلِ فطریہ: اول: مرد عورت کے استعمال کرنے کی غرض سے اُس سے نکاح کرتا ہے اور عورت اُس کے استعمال میں آتی ہے۔ اگر مرد صحبت کرنا نہ چاہے تو عورت اُس سے جبر نہیں کرا سکتی۔ اگر مرد جبر کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ جس سے صاف ثابت ہے کہ مرد عورت کا استعمال کرنے والا اور عورت اُس کے استعمال میں آنے والی ہے۔ دوم: صحبت کا آلہ مرد کو عطا کیا گیا ہے، پھر مرد کے مستعمل ہونے میں کیا شبہہ ہے۔ سوم: اولاد کے حق میں ماں کا مشقت اُٹھانا، حالانکہ وہ مرد کا نطفہ ہوتا ہے، اِس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عورت مثل ایک مزدور کے مستعملہ اور مرد اُس کا مستعمل ہے۔ دلائلِ عرفی: یہ ایسے دلائل ہیں کہ تمام مذہب والے ان پر عمل کرتے ہیں : اول: شادی کر کے خاوند کا عورت کو اپنے گھر میں لے جانا اور نکاح کے وقت اُسے کچھ دینا اور اُس پر مناسب طور پر حکمرانی کرنا اِس امر کا ثبوت ہے کہ تمام لوگ عورت کو مستعملہ جانتے ہیں ۔ دوم:ہر قوم کا عورتوں کو زیور اور کپڑوں سے مزین کرنا اور اِس کو معیوب نہ سمجھنا، بلکہ عورتوں کا بھی طبعی طور پر اِس طرف میلان رکھنا، اِسی امر کا ثبوت ہے کہ سب لوگ عورت کو مرد کی خدمت گزار جانتے ہیں ۔ سوم: عورت کا حمل کی وجہ سے تکلیف اُٹھا کر ہر قوم میں بچہ جننا اور اُس کا باپ کی نسل سے ہونا اور اُس کی طرف ہی منسوب کیا جانا، اِس امر کا قرینہ ہے کہ عورت مرد کی خادمہ ہے۔ مذہبی دلائل
Flag Counter