Maktaba Wahhabi

290 - 668
اور ان کے منہ پر خاموشی کی مہر لگا دی۔ تو آپ کے پاس گالی گلوچ کے سوا اس کا کیا جواب ہے؟ جس کتاب میں ماں بہن وغیرہ محرمات ابدیہ کے نکاح کی حرمت کا ذکر نہ پایا جائے وہ الہامی کیسے ہو سکتی ہے، ہر چند یہ مسئلہ سماجی دوستوں کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ سیرت: میں کہتا ہوں : یہ ایک اخلاقی رشتہ ہے۔ جس طرح آپ کی ازواجِ مطہرات لوگوں کی اخلاقی مائیں ہیں اور وہ سوائے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم )کے باقی سب پر حرام ہیں ، اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وسلم )بھی مومنوں کے اخلاقی باپ ہیں ۔ ان کا بھی یہ حق نہیں ہے کہ کسی اپنے مرید مومن کی بی بی مطلقہ کو اپنے تصرف میں لائیں ۔ (صفحہ: ۳۰۶) بصیرت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کا رشتہ عام اخلاقی ماؤں سے از حد بالا تر ہے، جیسا کہ قریب ہی گزرا ہے۔ ہر مذہب والے لوگ عورتوں کو دو طرح پر تقسیم کرتے ہیں : ایک وہ عورتیں جن سے نکاح قطعی حرام ہے، جیسے ماں ، بہن اور بیٹی وغیرہ۔ دوسری قسم وہ ہیں جن سے نکاح حلال ہے۔ لیکن نکاح سے پہلے ہر انسان کا اخلاقی فرض ہے کہ بڑی عمر والی عورت کو مثل ماں کے سمجھے، اپنی ہمشیرہ کی ہم عمر کو ہمشیرہ کی طرح خیال کرے اور اپنی بیٹی کی ہم عمر کو بیٹی کی طرح جانے۔ ہمارا تو یہاں تک خیال ہے کہ ہم عیسائیوں اور آریہ کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو اخلاقی طور پر مائیں اور بہنیں اور بیٹیاں سمجھتے ہیں ۔ شاید پنڈت جی کا بھی یہی خیال ہو گا، لیکن اخلاقی رشتہ بہ نسبت حقیقی اور رضاعی اور روحانی رشتے کے جس کی حرمت پر شریعت نے زور دیا ہے، نہایت زبر دست اور قوی ہے۔ اخلاقی رشتہ تو اس قدر ہے کہ انسان بدکاری سے محفوظ رہے، لیکن جس عورت سے شرعی طور پر نکاح ہو جائے تو فوراً اخلاقی رشتہ ٹوٹ جاتا ہے اور نکاح کا رشتہ اس پر غالب آجاتا ہے۔ اس پر تمام مذاہب کا اتفاق ہے۔ مگر پنڈت جی نے تو کمال ہی کر دیا۔ اخلاقی اور حقیقی رشتے کو برابر کر کے نکاح کا دروازہ ہی بند کر دیا۔ آریہ کی حالت پر ترس نہ کھاتے ہوئے ان پر ایک مصیبت کا بوجھ ڈال دیا۔ مثال کے طور پر ایک آریہ سے ایک عورت کا نکاح ہونے لگے تو وہ فوراً یہ کہہ کر انکار کر دے کہ میں تو اسے بہن یا بیٹی سمجھتا
Flag Counter