Maktaba Wahhabi

330 - 668
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتبار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دل میں سیرت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میری باری کی رات میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کروٹ لی، تھوڑی دیر اس خیال سے ٹھہرے رہے کہ شاید میں جاگ اٹھوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستگی سے دروازہ کھولا اور چل دیے، میں بھی اپنے کپڑے پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلی، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع قبرستان میں تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے دعا کی اور لوٹ پڑے۔ میں بھی واپس ہوئی اور گھر میں آتے ہی لیٹ گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آئے تو فرمایا: عائشہ! تو کیوں ہانپتی ہے؟ میں نے کہا: کچھ نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتلاؤ نہیں تو اللہ مجھے خبر دے گا۔ پھر میں نے ساری بات سنا دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے خیال کیا ہو گا کہ میں تیرا حق دباؤں گا، یعنی تیری باری کے دن کسی دوسری بی بی کے گھر چلا جاؤں گا۔ [صفحہ: ۳۰۱] (مسلم، ابن ماجہ، نسائي، کتاب الجنائز) [1] بصیرت: پنڈت جی کا اس واقعے سے استدلال کرنا کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بے اعتباری تھی، اس لیے غلط اور باطل ہے کہ ہر مذہب والا اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے مانتا ہے، اور بانیِ مذہب کو رشی رسول تسلیم کرتا ہے۔ اس اعتقاد کے بعد ہو نہیں سکتا کہ وہ اس پر بے اعتباری کرے، جیسے کہ پنڈت جی اور دیگر آریہ، سوامی جی اور ویدوں کے رشیوں کی نسبت بے اعتباری نہیں کر سکتے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی پر جوش محبت تھی کہ کبھی ان سے لغرش بھی ہو جایا کرتی تھی۔ انھوں نے سمجھا کہ نوبت بہ نوبت ازواج کے پاس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا
Flag Counter