Maktaba Wahhabi

352 - 668
کا ایسا غلبہ ہوتا، جس کو بے قراری کہا جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے درمیان نوبت بہ نوبت رہنا تقسیم نہ کرتے۔ پس اس کو بے قراری سمجھنا سفید جھوٹ اور بدبو دار نادانی ہے۔ حدیث یہ ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مرضِ موت میں مبتلا ہو گئے تو فرمانے لگے: آج کس کی باری ہے؟ آج کس کی باری ہے؟ اس سے آپ کا مطلب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچایا گیا۔ (بخاری) [1] اس کے بعد حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے، کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غشی طاری ہوئی، پھر ہوش قائم ہو گئی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھت کی طرف نظر کی اور فرمایا: اے خدا! مجھے اعلیٰ رفیق سے ملا، یعنی انبیا اور ملائکہ سے میری روح جا ملے۔ (مسلم باب فصل عائشۃ رضى الله عنها) [2] یہ تو تھی حدیث۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج سے پوچھنا کہ آج میں کہاں ہوں گا، ان سے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہنے کی اس لیے اجازت چاہتے تھے کہ اگر ان میں سے کسی کی باری ہے تو اس کی حق تلفی نہ ہو، پس ازواج نے بخوشی اجازت دے دی، جیسا کہ صحیحین کی بعض حدیثوں میں صراحتاً مذکور ہے۔ ناظرین خیال فرمائیں ! کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری مرض میں بھی اپنی ازواج کے درمیان عدل و انصاف قائم رکھا۔ اسے بے قراری سمجھنا پنڈت جی کی نافہمی اور لاعلمی کا نتیجہ ہے۔ اب ہمیں اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ فخرِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری مرض میں حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو اپنے لیے کیوں پسند فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آخری مرض جس میں خدمت کی سخت ضرورت ہوتی ہے، حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کی پوری خدمت سرانجام دیں گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری کلمات کو قوی الحفظ ہونے کی و جہ سے یاد کر کے دوسروں کو ان کی تبلیغ بھی کریں گی، چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔ ہر چند اس واقعے کا بے قراری نام رکھنا بدترین تعصب کا نتیجہ ہے۔ سیرت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جوٹھی مسواک۔
Flag Counter