Maktaba Wahhabi

356 - 668
مرض میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے، تکلیف ہوئی تھی۔ حدیث دوم: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میں کسی شخص کی موت کی سختی کو مکروہ نہیں جانتی، حوالہ مذکور۔ شدۃ الموت میں مضاف محذوف ہے، یعنی شدۃ مرض الموت (موت کی بیماری کی سختی)۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مرض الموت میں تکلیف کا ہونا خدا کی طرف سے ناراضی کا موجب نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو، جو سارے جہاں کے سردار ہیں ، کیوں تکلیف ہوتی۔ مزید برآں جب انسان کی روح نکل جائے تو حاضرین کو اس کا نکلنا محسوس نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ ان کے حواسِ خمسہ سے بالا تر چیز ہے۔ پس بنا برایں حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے روح طیبہ کے پرواز کرنے کی حقیقت کیسے معلوم ہو سکتی ہے، پس ان کے کلام کا مطلب یہی ہو گا جو ہم نے بیان کیا۔ تا کہ ان کی دوسری احادیث بیان کردہ کے موافق ہو جائے۔ فافہم پنڈت جی بتائیے! کہ آپ کے وہ رشی جن پر وید نازل ہوا، ان کے شریر، یعنی جسم سے کیسے روح مبارک نکلی، تا کہ ہم ان کی وفات کانبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے مقابلہ کر کے نتیجہ نکالیں ۔ آپ اعتراض تو کر دیتے ہیں ، لیکن اس کے مقابلے میں اپنی تعلیم کا نمونہ نہیں دکھاتے۔ البتہ سوامی دیانند سرسوتی مہاراج کی وفات کا ذکر جیون چرتر، سوانح عمری کلاں مصنفہ پنڈت لیکھ رام جی میں لکھا ہے کہ سوامی جی کو کسی نے زہر دے دیا اور اس زہر نے ان کے شریر، یعنی جسمِ گرامی میں ایسے سرایت کیا، جس سے ان کا جسم پھٹ گیا، جس سے ان کو سخت تکلیف ہوئی۔ معلوم نہیں کہ ان کے جسم سے روح نکلنے کی کیا کیفیت ہے۔ زہر سے جسم پھٹ جانا مرض الموت کی تکلیف تھی، جس کو ہم پنڈت جی کی طرح موت کی تکلیف نہیں کہہ سکتے۔ یہ کذب بیانی اور جہالت کا ارتکاب انہی کا حصہ ہے۔ سیرت: بخاری وغیرہ کی احادیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے کچھ پہلے کاغذ و قلم و دوات طلب کیا، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ پیغمبر ہذیان میں مبتلا ہیں ، ہمارے لیے کلام اللہ کافی ہے۔ (صفحہ: ۳۰۴) بصیرت: ہذیان و ہجر کے معنی بے ہودہ باتیں کرنے کے ہیں ، اس کی دو قسمیں ہیں : پہلی قسم: جاہل اور
Flag Counter