Maktaba Wahhabi

359 - 668
ام المومنین حضرت ز ینب رضی اللہ عنہا کا قصہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح کا ذکر قرآن مجید، احادیثِ صحیحہ، کتبِ سیر اور تفاسیر میں بھی مذکور ہے۔ مفسرین رحمہم اللہ نے اپنی تفسیروں میں اس قصے کے متعلق بے بنیاد منقولات اور روایاتِ کا ذبہ کو بھی جگہ دی ہے۔ اسی و جہ سے مخالفینِ اسلام کو اس پر بہت زہریلے اعتراض کا موقع ملا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعہ سے غلط روایات کو الگ کرتے ہوئے اس کی منزہ و مبرہ تصویر ہدیہء ناظرین کریں ۔ ہمارے مخاطب پنڈت جی نے بھی اس قصے کو نقل کرتے ہوئے ان سب روایاتِ کاذبہ کو ذکر اس لیے کیا کہ ان کو اس پر طعن کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے، حالانکہ بعض تفسیروں میں ان کی تردید بھی ملتی ہے۔ تفسیر ابنِ کثیر کو پنڈت جی نے ذکر کیا ہے، چنانچہ اس میں ان کی تردید زبردست الفاظ میں مذکور تھی، لیکن خیانتاً اس کو نظر انداز کر دیا۔ ان کو معلوم تھا کہ اگر ان کی تردید ناظرین کی نظر سے گزری اور ان کا بطلان ثابت ہوا تو میرے سب اعتراضات جو ان کی بنا پر ہیں ، باطل ہو جائیں گے۔ انھوں نے اس قصہ کو اول سے آخر تک ذکر کیا اور اپنے ان اعتراضات کو اس کے بعد لکھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے ہر ایک اعتراض کو بالترتیب لکھیں اور ہر ایک اعتراض کے ماتحت اس واقعہ کا وہ حصہ ذکر کریں ، جس سے جواب آ جائے اور ساتھ ہی قصے کا سیاق بھی ذکر ہوتا جائے۔ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ: حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آٹھ سال کی عمر کا غلام مکہ کے سوقِ عکاظ (بازار) میں بک رہا تھا۔ اس کو حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بن خویلد نے اپنی پھوپھو خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے لیے چار سو درہم کے عوض خریدا۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ام المومنین رضی اللہ عنہا نے حضرت زید رضی اللہ عنہ (غلام) کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دیا، کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرے۔ پس اس کا باپ حارثہ اور اس کا چچا جب اسے لینے آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو اختیار دیا، چاہے باپ کے ساتھ چلا جائے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرے۔ پس زید رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنا
Flag Counter