Maktaba Wahhabi

392 - 668
بہتان لگانے کی ان کو جرات پیدا نہ ہوتی اور اعتقاد پر بھی مغالطہ دینے کی بے جا کوشش نہ کرتے۔ پرمیشور نے بقول آریہ سماج اپنے رشیوں کے علاوہ ایک میاں بیوی کے کاموں میں دخل دیتے ہوئے سوال کیا ہے: اے بیاہے ہوئے مرد عورتو! تم دونوں رات کو کہاں ٹھہرے تھے؟ اور دن کہاں بسر کیا تھا؟ تم نے کھانا کہاں کھایا تھا؟ (رگ وید اشٹک ادھیائے ۸ سورگ ۱۸ منتر ۲ مقدس رسول صفحہ: ۷۵) کیا ہی فضول، بے خبری اور لاعلمی کے سوال ہیں ! شاید بقول پنڈت جی کے پرمیشور کو بھی ضعف ِ حافظہ کا مرض ہو، ورنہ شک تو اس کو ضرور ہے جب ہی تو وہ سوال کرتا ہے کہ تم دونوں رات کو کہاں رہے تھے؟ کیا خوب! کیا کوئی باحیا مرد یا عورت رات کو رہنے کا جواب دے سکتے ہیں ، ہر گز نہیں ۔ کیوں پنڈت جی یہ شک ہے یا جسے آپ نے سمجھا؟! سیرت: عظیم الشان پیغمبر کی عظیم الشان زندگی چاہیے، اس کو تمام دنیا کے لیے نمونہ چاہیے، اس میں دو باتیں پائی جانی چاہییں ، جو ’’الفوق علی المعمول‘‘ کہلائی جا سکیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مجھ کو کوئی ایسی بات نہیں ملی ورنہ میں خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ سچ کہتا ہوں کہ مجھے ان کو نبی یا رسول قبول کر لینے میں کوئی دریغ نہ تھا۔ (صفحہ: ۳۰۷) بصیرت: خدا کے فضل و کرم سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عظیم الشان پیغمبر ہیں ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی مقدس اور عظیم الشان ہے۔ تمام دنیا کے لیے وہ اعلی ترین نمونہ ہے۔ پنڈت جی تو دو باتیں چاہتے ہیں ، مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سرچشمہ آبِ حیات ہے۔ اس مصفیّٰ چشمے کو مخالفینِ اسلام نے مکدر کرنے کی بے جا کوشش کر کے عوام کو شبہات اور مغالطات میں ڈال کر اس سے متنفر کرنا چاہا۔ ہم نے خدا کے فضل و کرم سے اس کو بے نقاب کر دیا، اور ان کے خیانتانہ اعتراضات کی خوب قلعی کھول دی۔ اس زندگی اطہر کی جلوہ گری اور لمعات کو مخالفینِ اسلام نے اپنے کفر اور ظلمات اور الحاد کے پردے میں عوام سے مخفی رکھنا چاہا۔ ہم نے صدق و دیانت اور تحقیق کے آلے سے ان کے پردے کو چاک کر کے اس کی جلوہ گری کو عوام کے سامنے نمایاں کر دیا۔ پنڈت جی یوں تو میں بھی کہہ سکتا
Flag Counter